ادارہ فکروخبر بھٹکل نے نئے قلمکاروں کی ہمت افزائی اور ان کی صحیح رہنمائی کے لئے شروع کیا زورِ قلم کا نیا کالم

افتتاحی نشست میں تحریروں کو مثبت اور تعمیری رخ دینے کے لئے منظم لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنے پر ہوا اتفاق 

بھٹکل 27/ اگست 2020(فکروخبر نیوز)  نئے قلمکاروں کو میدانِ عمل لانے اور ان کے قلمی کاوش کو منظر عام پر لاتے ہوئے ہمت افزائی کرنے اور ان کی صحیح رہنمائی کی غرض سے ادارہ فکروخبر بھٹکل نے نیا کالم ”زورِ قلم“ کے نام سے شروع کیا ہے جس کی افتتاحی نشست آج دفتر فکروخبر میں بعد عصر منعقد کی گئی۔ نشست میں قلمکاروں کی ہمت افزائی کرنے اور ان کی صحیح رہنمائی کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور مستقبل میں اسی کے تحت آگے بڑھتے ہوئے قوم وملت کی خدمت کے لئے بہترین قلمکار، صحافی اور ادباء تیارکرنے پر زور دیا گیا۔ 
اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کے دوران صدر فکروخبر مولانا محمد الیاس ندوی نے کہا کہ سب سے زیادہ جو چیز انسان کو آگے بڑھاتی ہے وہ ہمت افزائی ہے اور اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید محمد واضح رشید صاحب ندوی کا نام آتا ہے جو طلباء کی علمی کاوشوں میں ہزار غلطیوں کے باوجود اس میں موجود ایک اچھائی کو اس طرح بیان کرتے تھے کہ سامنے والے کو اس سے حوصلہ ملتا تھا اور اس کے بعد اس کی علمی کاوشوں میں اس طرح ترقی دیکھی گئی کہ دیکھنے والے حیرت میں پڑگئے۔ مولانا نے کہا کہ تحریر کے لئے کسی کی رہنمائی کو اس کا لازمی اور ضروری جزء قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسان کو اپنی تحریر منظر عام لانے سے قبل کسی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ مولانا نے فکروخبر کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے علمی تعاون کی گذارش کی ہے او رکہا کہ ہمارا کام کرنے کا میدان بہت وسیع ہے اور اگر یوں ہی آپ کا تعاون ملتا رہا تو ان شاء اللہ ہم اس کے مختلف کھولنے کے لئے تیار ہیں۔ مولانا نے فکروخبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم نظام ندوی کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کئی مدت سے اس کوشش میں تھے کہ نئے قلمکاروں کا ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔ الحمدللہ آج اس کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور اب کام آپ حضرات کو کرنا ہے۔ آپ ایک مرتبہ لکھنے کی کوشش کریں، ان شاء اللہ آپ آگے بڑھتے جائیں گے لیکن عناوین اور مواد میں جدت لانے کی کوشش سے آپ کے مضامین مقبول بھی ہوں گے اور اس سے فائدہ بھی پہنچے گا۔ 
فکروخبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم نظام ندوی نے اپنے تحریری پیغام میں قلم کی اہمیت اور افادیت قرآن کریم اور احادیث شریف کے حوالے سے بہت ہی بہترین اسلوب میں بیان کرتے ہوئے اس نعمت سے دعوتِ الی اللہ کام انجام دینے کی نصیحت کی۔ مولانا نے تحریر کے ذریعہ منفی انداز سے بچتے ہوئے اسے مثبت انداز میں ڈھالنے اور اصلاحِ معاشرہ جیسی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے تنقیدی انداز کے بجائے اصلاحی میدان میں کام کرنے کی بھی ترغیب دلائی۔ مولانا نے نوخیز قلمکاروں کو آگے بڑھنے پر زور دیتے ہوئے اسے سچ اور سچائی پھیلانے کا ذریعہ بنانے کی بھی نصیحت کی۔ 
مولانا ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی نے اس میدان کے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے مضامین کے شائع ہونے کے خیال کو نکال دینا چاہیے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمیشہ مضامین لکھنے کے بعد اسے ایک نہیں بلکہ کئی کئی مرتبہ بغور پڑھنا چاہیے، اس کے بعد کسی سے اس کی اصلاح بھی کرانی چاہیے تاکہ اس کے اندر موجود خامیوں کا علم ہوجائے اور بہتر سے بہتر بنانے کے لئے مضمون پر نظر کرنے والوں سے رائے بھی لینی چاہیے۔ 


مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے ان نوخیر قلمکاروں نے کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ قلمی کاوشوں کو منظر عام پر لانے کے لئے مولانا محمد الیاس ندوی کے ساتھ ساتھ مولانا سید ہاشم نظام ندوی کا بھی بڑا رول رہا ہے۔ ہمیشہ ان کی کوشش رہتی ہے کہ قلمکار کی ہمت افزائی اس وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں آگے بڑھ جائے، انہو ں نے واقعات کی روشنی میں اس میدان میں آگے بڑھنے کے لئے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔ 
جلسہ کی نظامت کررہے مدیر اداری فکروخبر مولانا عبدالاحد فکردے ندوی نے زورِ قلم کے قیام کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اس میں تسلسل سے آگے بڑھنے کی بات کہی اور کہا کہ اس کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر جو صلاحیتیں موجود ہیں انہیں سامنے لاکر نکھارنے کی کوشش کی جائے اور یہ بات بغیر پلیٹ فارم کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ادارہ فکروخبر نے اس میدان میں قدم رکھتے ہوئے اسے موجودہ دور کی ضرورت سمجھتے اس کے قیام پر زور دیا۔ 
مولانا عبدالنور فکردے ندوی نے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم نظام ندوی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ مولوی سید ابولحسن ایس ایم کی تلاوت سے اس جلسہ کا آغاز ہوا، نعت نصیر احمد نے پیش کی۔ مولانا عتیق الرحمن ڈانگی ندوی کے شکریہ کے ساتھ یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ 
اس موقع پر، مولانا ابراہیم رکن الدین ندوی، مولانا احمد کبیر ندوی، مولانا فیض احمد اکرمی ندوی، مولانا شریح کوبٹے ندوی، مولانا فواز منصوری ندوی،  مولانا رضوان احمد کندنگوڑا ندوی، مولانا احمد ایاد ایس ایم ندوی اور جامعہ کے نئے فارغین کی ایک تعداد موجود تھی۔

Share this post

Loading...