زندگی بتانے کے لیے نہیں بلکہ مرنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں: مولانا قاسم قریشی

مولانا نے اپنے پورے خطاب کو دعوتِ دین کے دائرہ میں رکھ کر قرآنی آیتیں اور احادیث و واقعات کے حوالے سے کہا کہ سب سے پہلے خود اللہ داعی ہے، پھر اس کے بعد اس نے یہ ذمہ داری انبیاء کو سونپی اور جب انبیاء کا سلسلہ ختم ہوا تو یہ ذمہ داری ہم پر ڈالی۔ مولانا جہاں کئی سارے واقعات سنائے وہیں اتحاد کے دامن کو تھامے رکھنے کی بھی تلقین کی اور کہا کہ کتے کے کاٹنے کی وجہ سے کتے کو واپس کاٹا نہیں جاتا، اسی طرح کوئی انسان برائی کرتا ہے جھگڑا مول لیتا ہے تو اس سے بھلائی کرنا چاہئے ، کانٹے بچھائے جائیں تو پھول بانٹنے کی صفت پیدا کرے، گالی دے تو تبسم سے جواب دیا کرے۔ مولانا اس موقع پر موت کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ جس اولاد کے لیے ساری زندگی دوڑ دھوپ کرکے کھپا ڈالتے ہیں وہی اولاد اور رشتہ دار مرنے کے بعد چہرے پر مٹی ڈالتے ہیں، اور دنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان کی یہی حقیقت ہے ۔ اونچی عمارتیں اور موٹا بینک بیلنس کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ یہ تو کفار اور یہود ونصاریٰ کے پاس بھی ہے ۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہیں، ہم داعی ہیں اور پوری دنیا کے لوگوں تک اسلام کا پیغام عام کرنا ہے۔ مولانا نے ہندوستان میں اسلام کے اشاعت کے حوالے سے کہا کہ حضرت محمد بن قاسمؒ جو نوجوان تھے ، سندھ پر حملہ کیا تو اسلام ہندوستان میں داخل ہوا، حضرت طارق بن زیاد ؒ نے یورپ پر حملہ کیا تو یورپ میں اسلام داخل ہوا اوریورپ کے مسلمانوں کا ثواب طارق بن زیادؒ کے حوالے تو ہندوستان کے مسلمانوں کا ثواب محمد بن قاسم ؒ کے حوالے ۔
مولانا نے اس موقع پر دعوت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صحابہ میں تبلیغِ دین کا اتنالالچ تھا کہ جس کی کوئی حد نہیں تھی، انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ جماعت کی نماز کو چھوڑا، مکہ اور مدینہ کو چھوڑا، آل و اولاد کو چھوڑا، اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم تک دین پہنچانے کے لیے نکل پڑے۔ وہ ایمان و اسلام کو اگر اپنے تک محدود رکھتے تو ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں ایمان نہیں پہنچتا، مومن وہ ہے جو دوسرں کی بھلائی کا خیال کرے۔ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندگی گذارے، پوری امت کو جنت کی راہ دکھانے والا بن جائے۔ 
ملحوظ رہے کہ دوروزہ اس اجتماع میں کاروار ضلع کے تمام مضافاتی علاقے، بھٹکل ، شرور، بیندور، شرالی، منکی، ولکی، مرڈیشور، سرلگی، ہوناور، گیرسوپا، سداپور، ہلدی پور،کاروار اور دیگر علاقوں سے عوام کا ایک جم غفیرجمع ہوا تھا۔ کمٹہ کے مضافاتی علاقے میں چہار طرف بہترین جھاڑیوں کے درمیان واقع وسیع و کشادہ میدان کو بھٹکل ،کمٹہ اور دیگر حلقوں کے نمائندے خوبصورت انتظام سے مہمانوں کے لئے مختلف انتظامات کئے ہوئے تھے، شرکاء کی تعداد دس ہزار کے قریب تھی،اس اجتماع سے چار مہینے اور چالیس دن کے علاوہ تین دن کے لیے بھی کئی جماعتیں نکلی،دریں اثنا کل بعد نمازِ ظہر مولانا موصوف کا علماء کرام سے خصوصی خطاب تھا جس میں امسال فارغ ہونے والے طلباء میں سے کئی طلباء نے ایک سال کے جماعت کے لئے نام لکھوائے تو کئی علماء نے بیرون ممالک کے لئے بھی اپنے نام پیش کئے جب کہ نقد چالیس دن کی جماعت کے لیے بھی علماء نے اپنے نام پیش کئے۔ کل رات قریب دس بجے مولانا موصوف ہی کے رقت آمیز دعائیہ کلمات پر اجتماع خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

ijtima2

Share this post

Loading...