یہ وبا تجھے جینے نہیں دے گی ...!!!: انصارعزیز ندویؔ

اُن دنوں کئی لوگوں نے اس مسئلہ کو مجھے اپنی ’’سیدھی بات ‘‘میں لے کر تحریر کرنے کی درخواست کی تھی، مگر میری مصروفیت کی وجہ سے میں اس کو اگلے دنوں پر ٹالتا رہا اور بالآخر آج اس ذہن میں اس ویڈیو کو لے کرجمع ہونے والے کئی عناوین کو یکجا کرنے بیٹھ گیا۔
وہ ویڈیو گرافی کرنے والایا( والی) نے اس طرح شہر کے کئی دلہنوں کو یکجا کرکے ویڈیو گرافی کے بعد وھاٹس اپ کے ذریعہ جو عام کیا،اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ویڈیو گرافی کرنے والے اور اس کے بعد اپنے ڈیژائن کے ذریعہ واہ واہی لینے کے چکر میں وہ شخص یاعورت یہ بھول گئے کہ وہ کئی باپردہ عورتوں کو بے پردہ کرگئے، قوم کی بہو اور بیٹیوں کی خوشحال چلمن والی زندگی سے کھلواڑ کررہے ہیں، وہ یہ بھول گئے کہ جس معاشرہ میں عزت و ناموس کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے اُس کے دامن کو بھرے بازار میں تار تار کررہے ہیں۔ اس ویڈیو کی ذریعہ سے مستقبل میں پیدا ہوانے والی تمام دشواریاں، مسائل ، تو تو میں میں‘‘شک و شبہات اور بالآخر طلاق تک کے ذمہ دار وہی ہوں گے جنہوں نے اس بے ہودہ حرکت میں ملوث ہیں۔
میری تحریر مجھے بار بار ملامت کررہی تھی کہ ویڈیو گرافی کرنے والوں پر لعنت بھیجنے اور انکا بیڑہ غرق کرنے سے پہلے یہ تو سوچو کہ ویڈیو گرافی کی راہیں ہموار کس نے کی ؟؟ ظاہر سی بات ہے شادی بیاہ کے موقع پر اور دلہن کے رسمِ جلوہ کے موقع پر سوائے محرم کے کسی بھی غیر محرم مرد کو اس مخصوص جگہ جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اور پھر محرم مرد حضرات تو نکاح بیاہ کے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خود ان کو اپنا دھیان نہیں رہتا تو بھلا موبائل پکڑ کر کہاں سے لڑکپن کی چھچھوری عادتیں کرتے گھومیں۔ اس سے ایک بات صاف ہوگئی کہ ویڈیو گرافی کسی خاتون نے کی تھی اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں جتایا تھا، اور اس طرح کئی دلہنوں کی ویڈیو گرافی ملا کر میوژ ک بیک گراؤنڈ کے ذریعہ اپنی نہایت ہی گھٹیا سوچ کا ثبوت پیش کیا گیا تھا۔
مجھے یا د نہیں ہے کہ وہ تحریر میں نے کب پڑھی مگر اُس تحریر کا مفہوم آج بھی میرے ذہن میں پیوست ہے۔ اُس تحریر میں لکھنے والے نے ’’لباس‘‘ پر ایک خوبصورت تحریر لکھی تھی اور لبا س کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیاتھا۔سنئے!
لباس جو شرم و حیا، غیرت و شرافت، جسم چھپانے اور جسم کی حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے، جس سے تہذیب ، سلیقہ ، زینت و جمال کا اظہار ہو۔لباس کامقصد زینت و آرائش ، اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے۔ لیکن اولین مقصد شرم و حیاء حصوں کی سترپوشی،شرم وحیا انسان کی فطرت میں پیدا کی گئی ہے۔سوائے انسان کی دنیا کی ہر مخلوق اس عظیم نعمت سے محروم ہے۔شریعت اسلام میں لباس پرہیز گاری کی علامت ہو، اس سے غرور و تکبر نہ جھلکتا ہو، نہ عورت مرد کی مشابہت والا لباس اختیار کرے نہ مرد عورتوں والے۔عورت خدا کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،مرد کے دل کا سکون، روح کی راحت، ذہن کا اطمنان، اور بدن کا چین ہے۔
یہ مندرجہ بالاتعریف اُسی پر صادق آتی ہے جو عورت اپنے شرم و حیا کا پاس و لحاظ رکھے۔ اگر کوئی سہیلی اپنی سہیلی کی ویڈیو گرافی کررہی ہے اور اس پر منع نہیں کیا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں راضی ہیں، مستقبل میں اس کی جانب سے ہونے والی منفی اثرات سے یکسر نا بلد یا پھر بے پرواہ...؟
اس طرح کی لاپراہی پورے معاشرے کے لئے سمِ قاتل ہے،پردے سے لاپراہی اخلاقی رد ا کے بھیانک نتائج سامنے لائیں گی،مغربیت کے فریب، اسلامی درس سے دوری نے ہمیں اب اپنے پردے سے بھی بے پرواہ کردیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نفس کے بہکاوے میں ہیں کہ ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘ تصویریں محفوظ رہیں گی، ویڈیو گرافی کہیں نہیں جائے گی، اپنی ہی سہلیاں دیکھیں گی، سہیلیاں دیکھنے کے بعد دلہن کے نئے جوڑے کی تعریف کریں گی، خوبصورت کہیں گی،پھر کیا ہوگا، اپنی سہیلی کا بھائی اس کو دیکھے گا، پھر کیا ہوگا؟ سہیلی کے بھائی کا دوست اُس کو دیکھے گا...دونوں غیر محرم ...اب گروپ میں شیر کریں گے...اس طرح پھیلتے پھیلتے یہ تصویر اور ویڈیو گرافی اس نئی نویلی دلہن کے شوہر تک پہنچے گی...پھر آگے کیا ہوگا؟؟ آپ خود اندا زہ لگائیے...دنیا کی جھوٹی تعریف کے لیے جس دلہن نے اپنے تصویر کشی کی اجازت دی تھی اب وہی تصویر اس کی خوشحال زندگی میں زہر گھول جائے گی، شک و شبہات کے دروازے کھلیں گے، میں میں تو تو ہوگی‘‘ جھوٹ کا بازار گرم ہوگا، الزامات کی بوچھاڑ اور پھر آنکھوں میں آنسو، بے بسی ، تنہائی اور ویڈیو گرافی کرنے والی یا والے پر لامت و ملامت!
تخلیقِ آدم ؑ کے بعد اللہ رب العزت کے حکم پر حضر ت آدم علیہ السلام جنت کے مزے لوٹنے لگے، جنت کی ہر آرائش ہونے کے باوجود حضرت آدم ؑ کو دلی تسکین نہیں تھی، جنت میں ہر قسم کی آسائش تھی، مگر پھر بھی دل خالی خالی ، سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے کااحساس، اللہ تو دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے، مالکِ حقیقی ہی کی ذات ہے جس نے انسان کے سینے میں دل بنایا اور پھر اس میں جہاں کئی سارے احساسات کے مادوں کو رکھا اسی میں ایک محبت بھی تھا، اوراسی محبت کا تقاضہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلاۃ والسلام کو جنت کی ہر آسائش میسر ہونے کے باجود دلی سکون نہیں تھا، محبت کے اظہار کے لیے کوئی شئی نہیں تھی۔ ایک دن سوکر اُٹھے تو بغل میں اماں حواؑ کو پورے پردے میں چادر میں لپٹ کر سویا ہوا پایا، چہرا کھل کھل اُٹھا، دل کے تسکین کا ساماں بغل ہی میں تھا، خوشی سے پھولے نہیں سمائے اور اچانک اللہ سے فرطِ مسرت میں سوال کر بیٹھے کہ اے اللہ رب العزت یہ کیا ہے؟؟ اللہ نے فرمایا ..یہ تیرے دل کا سکون، روح کی راحت، ذہن کا اطمنان، اور بدن کا چین ہے۔
دراصل مجھے آپ کو اس واقعہ میں عورت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ پردے کی اہمیت کو بتانا ہے..اللہ چاہتا تو حضرت آدمؑ کو جس طرح فرشتوں کو حکم دے کر تخلیق کیا، پتلا بنایا پھر روح پھینکا اس طرح حضرت حواؑ کی بھی تخلیق کرسکتا تھا، مگرایسا نہیں ہوا، حضرت آدم ؑ جب سورہے تھے، پورے پردے میں رکھ کر اماں حوا کی تخلیق کی اورپھر حضرت آدم علیہ السلام کی نظر حضرت حوا پر جب پہلی بار پڑی تو اُس وقت بھی وہ پردے میں ہی تھی اور معصوم سا چہرہ لئے آرام کررہی تھیں۔
مجھے اپنی بہنوں سے سیدھی بات کرنے کی اجازت دیں جب اللہ رب العزت نے ہمیں عزت دیا، آپ کا لحاظ رکھا، پردے میں رکھ کر تخلیق کی اور عزت افزائی کے لیے مردوں کو حکم دیا کہ اپنے نظروں کو نیچے رکھا کرو تو پھر ہم خود بے پردہ ہونے پر کیوں مصر ہیں؟؟! ’’ضیافت ہو یا ، شادی بیاہ، مہمانوں کی گھر میں آمد ہو یا آپ کا کسی گھر میں مہمان بننا‘‘عورت صرف گھر کی زینت ہے ‘‘ کوئی تصویر کشی کرنا چاہے تو آپ صاف طور پر انکار کردیں؟ نہ ماننے کی صورت میں اس پر کھلم کھلا احتجاج کریں، دوستی ، یاری کو بھول جائیں، اگر آپ یہاں لاپرواہ ہوگئیں تو یاد رکھئے کہ یہی دوستی یاری آپ کے عزت وناموس کو لے ڈوبے گی ، اور پھر معاشرہ میں بدنامی‘‘
جس نے بھی ویڈیو گرافی کی اور اس کو پھیلانے میں جس نے بھی مدد کی ’’ سب کے سب اللہ کے یہاں پوچھے جائیں گے ‘‘اور اس ویڈیو کی وجہ سے جن کی زندگیاں برباد ہوگئیں وہ لوگ بھی ان کا اُس دن گریہبان تھامیں گے جس دن قیامت برپا ہوگئی ..مگر! توبہ کے دروازے ابھی بھی کھلے ہیں....!!

Share this post

Loading...