یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا؟؟...انصارعزیز ندوی

جی ہاں!! دراصل دوسرے دن بھٹکل ٹراویلس کے مالک جو ایک قسم سے میرے دوسرے مشفق میزبان تھے اور پھر مولانا ہاشم ندویؔ صاحب کے ہم زلف جناب فیصل پیشمام کے گھر ظہرانے کی دعوت نوش کرنے کے بعدفکروخبر کے اداراتی اور دیگر نیوز اپڈیٹس کے مصروفیات میں جڑ گیاکیونکہ آج اپنے ایک ہم جماعت ساتھی کے ساتھ سیر کے لیے نکلنا تھا۔ 
ڈوبتا سورج الوداع کہہ رہا تھا،شعاعیں مدھم پڑ رہی تھیں،کرنیں ایسی ماند ہورہی تھیں کہ جیسے چاند چاندنی سے محروم ہورہا ہو،ڈوبتا سورج گھٹا ٹوپ اندھیرے کے آمد کی خبر دے رہاتھا۔ اور ایسے خوبصورت منظر کے دوران دبی الجمیرہ اور دبئی المرینہ کا علاقہ قابل دید اوراس کی خوبصورتی ناقابلِ بیان۔
میرے ہم جماعت ساتھی مولوی جاوید ائیکری اپنے وعدے کے مطابق مجھے اپنے کار میں سوار کرکے اس خوبصورت نگر ی کے حسین گلیوں کے سیروتفریح کے لئے لے نکلے تھے۔ شام حسین تھی، موسم بھی سہانا تھا اور مدتوں بعد ہم جماعت ساتھی کا ساتھ۔سیروتفریح کے لطف کو دوگنا کردیا تھا ...
اکثر میرے دوست مجھے کہتے ہیں کہ مجھے کوئی اچھا بھی لگتا ہے یا نہیں، کہیں کوئی خوبی نظر نہیں آتی؟ میں کیا جواب دوں ، حقائق اور حالات تمام باتوں کا جواب دیتے ہیں،میری تحریر مطلب پرستی اور موقع شناسی سے پرے ہوتی ہے۔
دراصل میرے ساتھی جاوید ائیکری نے وہ پورا علاقہ جہاں سمندر کی جگہ کو سکھا کر فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کی گئی تھی ، پوری جگہ کا دیدار کرواتے ہوئے مجھے اچھنبے میں ڈال دیا تھا اور اُس موقع پر میں اپنے ساتھی سے برجستہ کہہ بیٹھا تھا کہ قدرت سے کھیلنے کے لیے انسان نے کس کس قسم کے کیمیکل کی ایجاد کرڈالی ہے ، اور آنے والی نسلیں پتہ نہیں اس شہر کے کس نقشہ کو اپنے تاریخ کے اوراق میں جگہ دیں گے۔ تبھی تو میں نے کہا کہ ’’یہ کون ہے جو شہر کا نقشہ بدل گیا‘‘
اس علاقے میں بے حیائی اپنے عروج پر ہے، دراصل یہ سیروتفریح کی جگہ اور آئی ٹی سیکٹر کے اہم مرکزی ادارے ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ رہائش پذیر ہیں.. .اور ویسے بھی یہ شہراب دنیا کے امیر ترین لوگوں کی پہلی پسند بن چکا ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ پہلی پسند کیوں بنا؟؟
اس شہر میں قانون کی پاسداری ہے، ہر قسم کی سہولیات سے اس شہر کو آراستہ کیا گیا ہے، جرائم ہونے کے باوجود میڈیا پر مکمل گرفت ہے کہ وہ اس کو مرکز ی صفحہ پر شائع کرکے ملک پر بدنما داغ نہیں لگا سکتے۔دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار اس شہر میں اپنا سرمایہ لگائے ہوئے ہیں اور مزید لگانے کے مواقع تلاشتے رہتے ہیں، یہاں کی حکومت نے تجارت کے سلسلہ میں ہر ملک کے لیے آزادی دے رکھی ہے، ویزا کے حصول میں دقتیں نہیں ہیں۔ ویسے یہاں عام طور پر یہ تاثر ہے کہ جرائم میں کمی پائی جاتی ہے۔ہر ترقی یافتہ ملک کی طرح یہاں بھی بے حیائی کو خوبصورت الفاظ دے کر اس کی نوعیت کو ہی بدل کر رکھ دیاہے۔ 
سورج پوری طرح ڈھل چکا تھا، اور ہم واپس اُس مقام کی جانب جارہے تھے جہاں مجھے ایک اور دنیا نظرآئی۔ڈیرہ دبئی کا یہ وہ مقام ہے جہاں اپنے شہر کے لوگ اکثر رہائش پذیر ہیں، یہ دنیا کچھ الگ ہی تھی، واپسی میں مولوی جاوید ایئکری کے ساتھ انہی باتوں پر گفت وشنیدجاری تھی۔ مولوی جاویدخوبصورت مساجد کا نظارہ کراتے ہوئے ڈیرہ مقام پر لے آئے جہاں مولانا ہاشم ندوی نے مجھے پک اپ کرنے کے لئے گھر سے نکل چکے تھے۔ اس دوران برادرم جاوید نے مجھے یہ ایک ایسی دنیا دکھائی جس کو دیکھ کرمیں ابھی کچھ دیرپہلے جو منظر دیکھا تھا یکسر بھول گیا۔ یہاں مجھے محسوس ہوا کہ دیار غیر میں اپنے شہر کے لوگ جو خوابوں کو اپنے پلکوں میں سجا کر جاتے ہیں ، ان کوپورا کرنے کے لئے کتنی مشکلات کا سا منا کرنا پڑتا ہے، اپنے شہر کے آرام و سکون کو تج دے کر اہلِ خاندان و اہل وعیال کی زندگی مسرورکن بنانے کے لیے کن کٹھنائیوں سے گذرتے ہیں، میں نے یہیں محسوس کیا کہ اس شہر نے کتنے ہی بے روزگاروں کو روزگاری فراہم کی، دنیا کے کئی ممالک سے لوگ اس شہر میں کیسے برسرِ روزگار ہیں، کتنوں کی زندگیاں پلتی ہیں۔کتنے خوش ہیں اور کتنے ناخوش۔ کون کتنے برس ہوئے جس نے اپنی ماں بہنوں کا چہرہ نہیں دیکھا اور کون ہے جو چھٹی کے انتظار میں ہے کہ چھٹی مل جائے تو اپنے شہر لوٹ کر اپنی نئی نویلی دلہن سے ملوں؟
یہاں دکھ ہے، درد ہے، جدائی ہے ، جینے کی آس ہے، گھر والوں کو خوش رکھنے کی اُمید ؟
قارئین! یہ منظر وہ ہے جو الگ ہی مضمون چاہتاہے، اگلی تحریر میں ان کھٹنائیوں کو، در دو الم کو، جدائی اور مصروف ترین زندگی کو ضرور بیان کروں گا(انشاء اللہ) فی الحال اجازت دیں)

Share this post

Loading...