تعزیتی قرارداد بروفات قاضیِ شہر وصدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل
حضرت مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی رحمۃ اللہ علیہ
21 جولائی 2020(فکروخبر)
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
23 / ذی القعدۃ الحرام 1441 ھ مطابق 15 / جولائی 2020 بروز بدھ سوگوار شام ہر آنکھ کو نمناک اور دل کو مغموم کیے ہوئے تھی، ہر زبان جو اب تک بارگاہ ایزدی میں جن کی صحت وعافیت کے لیے دعا میں مصروف تھی ان کے سانحۂ ارتحال کی افسوس ناک خبر سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے پر مجبور تھی، مصائب و مشکلات سے چور اور شکستوں سے نڈھال امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان بھٹکل کے لیے یہ حادثۂ فاجعہ کسی طوفانِ غم اور صاعقۂِ الم سے کم نہیں تھا۔
آہ! قاضیِ شہر بھٹکل، صدرِ جامعہ اسلامیہ، مدبر فقیہ، علماء وحفاظ کے سرپرست، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی ؒ اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
مولانا مرحوم نصف صدی تک شہر بھٹکل کے افق پر صلاح وتقویٰ،علم وعمل، غیرت وحمیت، خود داری اور خود اعتمادی کا آفتاب بن کر چمکے اور اور ہم سب کو اسی کادرس دے کر رخصت ہوئے، ایک عالمِ ربانی بن کر ملت کی ڈگمگاتی نیا کی ملاحی کا فریضہ بحسن وخوبی ادا کرتے رہے۔
مولانا بھٹکل کی نشأتِ ثانیہ کے امین ومحافظ تھے، اولین فارغین جامعہ کی حیثیت سے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر بھٹکل کو صحیح دینی سمت کی طرف لے جانے، نوجوانوں کی دینی حمیت وغیرت کو ابھارنے، علماء وحفاظ میں خودداری اور خود اعتمادی پیدا کرنے، بدعات وخرافات کے ازالے اور منکرات کی روک تھام کے لیے آپ کی قربانیاں اور جد وجہد ناقابل فراموش ہیں اور ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
اللہ تعالی نے مولانا مرحوم کو اس قدر گوناگوں صفات اور علمی و عملی کمالات سے نوازا تھا کہ قدرتی طور پر ان کی شخصیت پورے خطے میں مرجع خاص و عام بن گئی تھی، مولانا مرحوم چھوٹے بڑے ہر ایک سے ملنساری اور خوش مزاجی کے ساتھ ملاقات کرتے، اپنے ماتحتوں اور چھوٹوں کی ہمت افزائی کرتے، نو عمرحفاظ اور نئے فارغ ہونے والے علماء کی حوصلہ افزائی فرماتے, مولانا سے استفادے کا دائرہ بھٹکل و اطراف ہی تک محدود نہیں تھا ،بلکہ کہنا چاہیے کہ پورا ملک ان سے مستفید ہو رہا تھا۔
ہندوستان میں وہ فقہ شافعی کے اکابر علما میں تھے، علم ہیئت و فلکیات کے ماہر تھے، جغرافیہ اور ریاضی پر بھی عبور حاصل تھا، اسلامی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
غرض مولانا مرحوم کی زندگی اتنی تابندہ اور روشن تھی کہ اسے کسی درخشاں ماہ پارے سے تشبیہ دیجیے یا صبح کے تارے سے۔
قرآن پاک سے مولانا کو جو قلبی لگاؤ تھا وہ محتاج بیان نہیں، مولانا مدرسہ تحفیظ القرآن کے ناظم بلکہ اس کےبانیان میں تھے، جہاں بیسیوں دختران ملت نے تکمیل حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی، مولانا خود بھی کلام اللہ کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے ،اکثر نماز سے قبل مسجد میں تلاوت میں مشغول رہتے۔
مولانا مرحوم جمعیت الحفاظ بھٹکل کی طرف سے منعقد ہونے والے مسابقوں اور حفظ قرآن کے اکثر جلسوں میں شریک ہوتے،جلسے کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے اور ہم کارکنان کی ہمت افزائی کرتے، اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود کلام اللہ کی نسبت سے اور قرآن پاک کو سننے کے شوق میں دیر رات تک بیٹھے رہتے، اگرچہ کہ مولانا حافظ قرآن نہیں تھے مگر عاشق قرآن ضرور تھے۔
اس موقع پر ہم جمعیت الحفاظ بھٹکل کے جملہ ممبران واراکین ان کی جدائی کے غم میں برابرکے شریک ہیں اورجماعت المسلمین بھٹکل، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور ان کے اہل خانہ ومتعلقین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور جناب خداوندی میں بصد الحاح یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مولانا کو غریق رحمت کرے، ان کو خاصان بارگاہ میں شامل کرے، امت کو ان کا بدل عطا کرے، اور ان کے بعد ہر قسم کے فتنے سے ہماری حفاظت کرے۔
مثلِ ایوانِ سَحَر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبِستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂِ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
والسلام
صدر وسکریٹری واراکین انتظامیہ
جمعیت الحفاظ بھٹکل
Share this post
