محترم جنرل سکریٹری صاحب ، جماعت المسلمین بھٹکل اور محترم ناظم صاحب، جامعہ اسلامیہ، بھٹکل۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاۃ۔
مولانا محمد اقبال ملا صاحب چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل و صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل کوچ کر گیے۔ کل تک جو ہمارے ہر غم میں شریک غم رہا آج اسی کے غم کو کیسے برداشت کریں سمجھ میں نہیں آتا۔
مولانا عبد الباری صاحب کے سانحٔہ ارتحال کا زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ مولانا ملپا علی صاحب مفارقت دے گئے اس صدمہ سے ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ اب مولانا ملا اقبال صاحب راہی عدم ہو گئے۔عبد الباری اور ملپا صاحبان کی اموت نے ہمیں انتہائی غمگین بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں ہمارے ذہنوں کے کسی گوشے میں یہ بات تھی کہ الحمدللہ ملاّ اقبال تو ہم میں موجود ہیں۔ مگر آہ! اب یہ سہارا بھی نہ رہا۔ ائے اللہ بیشک ہم تیری رضا کے سامنے سر جھکاتے ہیں لیکن ہماری ناتوانی اتنی بڑی آزمائیش کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، یہ دور جو ابتلا و آزمائیشوں کا دور ہے، اس وقت ہمیں تیرے رحم و کرم کی سخت ضرورت تھی اور ایسے ہی وقت اقبال صاحب کی موت!! ائے اللہ کہاں سے لائیں وہ دل جو اس غم کا متحمل ہو سکے۔
ہم پھر یہی سوچ کر رہ گئے کہ جس موت کو برحق کہا گیا ہے وہ تو جسد خاکی کے لیے ہے۔ لیکن مولانا ملا اقبال تو ایک پیغام تھا جو مر نہیں سکتا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا پیغام آج ہمیں اورکل انشااللہ اگلی نسلوں کے لیے صحیح سمتوں کی طرف ہمیشہ رہنمائی کرتا رہے گا۔
جس شخص کی سرپرستی مولانا ملپا علی صاحب نے کی ہو، جسے رہنمائی عثمان ماسٹر صاحب سے ملی ہو اور جو محی الدین منیری صاحب کی ہدایات کے زیر سایہ پروان چڑھا ہو وہ تو عِلم و اخلاص کا پیکر نہیں تو اور کیا بنے گا۔ انہی بزرگان ہی نے توجامعہ اسلامیہ کی تشکیل و تعمیر میں بڑا کردار ادا کیا تھا اور اسی جامعہ کو پروان چڑھانے میں مولانا اقبال صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے انتہا کوشش کی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج جامعہ جنوبی ہند کا ایک با وقار دینی مدرسہ بن چکا ہے۔ اس سے بے شمار طلبہ استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ علاقے کی ہر دینی ضرورت کو پورا کر رہا ہے۔ یہاں سے جو حفاظ اور علما نکل رہے ہیں وہ اصلاح معاشرہ کا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ اللہ کی جانب سے بہت بڑا اعزاز ہے کہ مولانا اقبال صاحب جیسی شخصیت کا تعلق ہمارے شہر سے ہے۔ وہ ایک عالم دین، ادیب کامل، جماعت المسلمين کے قاضی، صدر جامعہ اسلامیہ، دار العلوم ندوۃ العلماء سے سے فارغ عالم تھے۔ فقہی مسائل پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھی۔ ہندوستان میں فقہ شافعی کے اکابر علماء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ یہ کہنا صحیح معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دور کے علماء میں ایک خاص درجہ رکھتے تھے ۔ بلکہ انہیں یو ں کہنا چاہیئے کہ وہ "خاص علما" میں ایک "خاص" درجہ رکھتے تھے۔ اپنی صفات میں وہ بس یکتا تھے اور اپنی نظیر آپ تھے۔ پچاس سالوں سے زیادہ پر محیط ان کی علمی زندگی قران و حدیث، فقہ و اصول فقہ، عقا ئد کی درستگی ، بھٹکل کے ہر دینی معاملات میں رہنمائی، تعلیم، تعلیم نسواں اور قضاۃ پر مشتمل ہے۔ علوم جدیدہ اور مسائل حاضرہ سے وہ پوری طرح باخبر تھے۔ خیالات میں وسعت، رواداری، خوش اخلاقی اور روشن خیالی ان کی زندگی کی بنیادیں تھی۔
ان کے خویش و اقارب انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر ان کا شوق انہیں کسی اور ہی جانب لے جا رہا تھا۔ نوجوانوں میں جن کی عمریں 20 سالوں کے آس پاس ہوں کون ایسا ہو گا جن کے دلوں میں دنیوی ترقیوں کے ارمان اور مالی خوش حالی کے حوصلے نہیں ہوتے۔ لیکن ا ن چیزوں کی قربانی دینے اور دینی راہ اختیار کرنے میں مولانا اقبال صاحب کے قدم ذرا نہ ڈگمگائے۔ انجمن اسکول سے فراغت کے بعد دینی تعلیم کی جانب چل پڑے۔واپس آکر جامعہ ہی کے ہو کر رہ گئے۔ ابتدائی سالوں میں درس و تدریس کا کام سنبھالا ور پھر آگے بڑھتے ہی چلے گیے۔،پہلے ٹرسٹی، دیگر عہدوں پر فایز اور پھر منصب صدارت ۔ بعدازاں جماعت المسلمین بھٹکل نیانہیں منصب قضاء سونپ دیا۔
یہ ان کا ایک ایسا سفر ہے جو کسی عام انسان کا نہیں ہو سکتا۔ اس سفر میں صرف دینی علوم ہی کافی نہیں بلکہ دنیوی امور سے بھی آگہی کے ساتھ ساتھ صاحب الرائے ہونا بھی ضروری تھا۔۔ زندگی کے سفر میں مولانا اقبال صاحب ایک ایسے مسافر ہیں جنہوں نے راستوں کی ناہمواری اورصعوبتوں کے باوجود آ خر میں اپنی منزل پا ہی لی۔
آپ نے نہایت ہی خاموش انداز سے علم دین کے فروغ اورصحیح اسلامی افکار کی ترویج میں بڑا کردار ادا کیا۔ ہم جب ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر صرف نظر کرتے ہیں تو ہمیں دین، تعلیم، دینی تعلیم، تعلیم نسواں فاروقی مسجد ، جامعہ، جامعۃ الصالحات، امامت، یہی کچھ نظر آتے ہیں۔ جب کسی انسان میں اتنی زیادہ صفات ہوتی ہیں یہ نہایت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ آخر کس کس صفت کو بیان کیا جائے۔
دین کی وہ چیزیں جن کو جاننا اور ان پر عمل ایک عام مسلمان کے لیے ضروری ہوتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک وہ صرف چند علماء تک محدود تھی۔ مثلاً قربانی، جنازہ، تجہیز و تدفین اور لحد وغیرہ۔ اقبال صاحب نے ان تمام امور کو قوم کے نوجوانوں کو سکھایا ۔ بھٹکل میں سالہا سال چلی آرہی غیر اسلامی ریت رواج جن کو اسلام سمجھ کر کیا جاتا تھا ان خرافات کا نہایت ہی خاموشی سے قلع قمع کیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کوئی اور ہوتا تو یہ کام بغیر فتنہ فساد اور قتل و غارت گیری کے شاید ممکن نہ ہوتا۔
مسجدوں کی امامتیں تو بہت سے علماء کے حصوں میں آیئں۔ لیکن کتنے ایسے عالم دین ہوں گے جو ان امامتوں کے ساتھ پورے علاقے کے نوجوانوں پر مشتمل اپنی محنتوں اور تربیتوں سے ایک ایسا گروپ تیا ر بھی کرتے ہوں جس سے اُن میں دینی حمیت اور اسلامی اوصاف بلکل صاف نظر آتے ہوں۔ یہ شرف اقبال صاحب ہی کو حاصل ہے۔ اس کے لیے بھٹکل کی نوجوان نسلیں ہمیشہ ان کی مرہون رہیں گی۔ ہمارے نزدیک صرف نوجوان نسلیں ہی نہیں بلکہ علمائے وقت کی پوری کی پوری صفیں بھی ان کی مرہون ہوں گی اس لیے کہ مولانا اقبا ل صاحب نے معاشرے میں علماء کو فاتحہ خوانی والے مولوی صاحب کے مقام سے ایک مقتدر اعلیٰ اور معزز مقام دلایا۔
فی زمانہ شاید ہی ایسا کوئی ایسا منظر دیکھے کو ملے جب فاروقی مسجد کا امام اور ایک مدرس ، تقریباً پچاس اداروں پر مشتمل بھٹکل کی اولین اور تاریخی بین الجماعتی کانفرنس میں نہ صرف رہنمائی کرتا ہے بلکہ عملاً مرکزی کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اندازہ لگا یئں اُن پچاس اداروں میں تنظیم، انجمن،جامعہ، دونوں جماعتیں، النوائط، نقش نوائط، ادارہ تربیت اخوان، ممبئی، کیرالہ، کلکتہ، مدراس، وجیواڑہ، دبئی، ابو دھابی، مسقط، دمام، ریاض، جدہ، ینبع، کویت، بحرین، قطر کی جماعتیں جیسے موقر ادارے شامل تھے۔
اتنے اعلیٰ منصبوں پر فائز رہنے کے باوجود عاجزی اور انکساری کا وہ عالم تھا کہ جو بہت ہی کم سننے کو ملتا ہے۔ تین روز قبل آپ ہی کے منعقدہ جلسے میں کوئی مقرر یہ کہہ رہا تھا کہ اقبال صاحب کسی محفل میں عام لوگوں کی صف میں مَسنَد سے دور ایک معمولی شریکِ محفل کی حیثیت سے بیٹھنا پسند فرماتے تھے۔ اسی پیکرِ انکساری کا نام ہی تو مولانا اقبال تھا، جو ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنے لیے کوئی مقامِ امتیاز گوارہ نہ کیا۔ سادگی ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھی۔ یہ ان کے لباس، کھانے پینے اور رہنے سہنے سے پوری طرح نمایاں تھی۔
کہنے کو تو وہ ایک دین سکھانے والا ایک استاد تھا، لیکن کیا کوئی ایسا بھی استاد ہے جو بیک وقت بی بی سی کی خبریں بھی بلاناغہ سنتاہو، جو قانون پر بحث بھی کرسکتا ہو، جو جغرافیہ اور فلیکیات پر بھی دسترس رکھ سکتا ہو، جو سیاسی بصیرت بھی رکھتا ہو، جو ہو تو اردو میں ادیب کامل مگر ہندی سے بھی شغف رکھتا ہو،نوجوانوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول ہو۔ ممکن تو نظر نہیں آتا۔
جیسے جیسے ان کے اوصاف ہم لکھ رہے ہیں ہر سطر کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ اورکس کس کا احاطہ کیا جائے ۔ ان کے فقہ شافعہ پر عبور کا ذکر کریں، یا محکمہ شرعیہ میں قضیات کے تصفیے میں جو کردار وہ ادا کرتے ہیں ان کا ذکر کیا جائے، یا تمام مسلکی تفرقات سے پرے ان کے انداز فکر کا ذکر کریں، یا ان ایام اعتکاف کا ذکر کریں جس میں نوجوان اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ وہاں اقبال موجود ہوتے ہیں۔
ویسے تو بھٹکل کا کوئی ادارہ ایسا نہ تھا کہ جس کا تعلق مولانا اقبال سے نہ رہا ہو۔ خلیج کونسل سے بھی انہوں نے ہمیشہ قریب کا ربط قائم رکھا۔ ہماری ہر عوامی تقریب میں ان کی شرکت کو ہم نے لازم رکھا۔ جب جب ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت پیش آئی ہم نے ہر وقت انہیں اپنے ساتھ پایا۔ مولانا کا انتقال خلیج کونسل کے لیے یقیناً ایک ازمائیش کا مقام ہے۔ ہم جامعہ اسلامیہ اور جماعت المسلمین میں ان کے رفقااور ان کے خاندان والوں کے ساتھ برابر غم میں شریک ہیں۔ یہ ہم تمام کا مشترکہ غم ہے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے قوم و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
شامل غم۔ یونس قاضیا۔ سیکریٹری جنرل۔ بھٹکل مسلم خلیج کونسل۔
Share this post
