محترم و مکرم ذمہ داران و اراکین جماعت المسلمین بھٹکل
محترم و مکرم ذمہ داران و اساتذۂ جامعہ اسلامیہ بھٹکل
السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
چیف قاضی جماعت المسلمین اور صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل حضرت مولانا ملا محمداقبال ندوی - نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ - کی اندوہ ناک رحلت کی خبر سن کر بھٹکل و اطراف بھٹکل میں صف ماتم بچھ گئی اور رنج و الم کی لہر دوڑ گئی، ہر ایک کے دوشِ ناتواں پر کوہ غم ٹوٹ پڑا، جہاں فضا سوگوار اور آنکھیں اشکبار ہیں، وہیں دل ماہی بے آب کی طرح بے چین و بے قرار ہے، آج ہر کوئی اپنے کو تنہا محسوس کر رہا ہے، فی الحقیقت آپ کی وفات حسرت آیات ہم سب کے لیے سوہان روح سے کم نہیں ہے لیکن ہر انسان کو اپنا وقت مستعار ختم ہوتے ہی خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہونا ضروری و یقینی ہے، اس روح فرسا حالت میں ہم وہی کہیں گے جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرزند کی وفات پر فرمایا تھا :ہماری آنکھیں اشکبار ہیں، لیکن زبان وہی کہے گی، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے "انا للہ وانا الیہ راجعون".
مولانا مرحوم کی دلکش شخصیت، جن میں بلا کی صلاحیت تھی، کردار و گفتار، علم و عمل، دعوت و اخلاق کی جامع اور مختلف الجہات تھی، تاہم اس پر دعوت و اصلاح امت، نرم مزاجی و بردباری کا رنگ غالب تھا، آپ سراپا اخلاص و للہیت کا جامہ اوڑھے اعتدال و تواضع اور زہد و تقویٰ کی نعمت سے مالا مال تھے، اللہ کی محبت، رسول اللہ کی اطاعت اور سنت نبوی پر عمل آپ کی شخصیت کے جامع نقوش ہیں، علم فلکیات کے سمندر کے شناور اور فقہی مسائل کی گرہ گشائی میں ماہر تھے، ایک طرف آپ نے علاقہ میں پھیلے بدعات و خرافات کا حکمت و دانائی سے قلع قمع فرمایا تو دوسری طرف نوجوانوں میں دینی روح کی آبیاری فرمائی، آپ کے چشمۂ علم و معرفت سے ہزاروں تشنگان علوم نبوت نے سیرابی پائی اور آپ کی نگاہ بصیرت سے سینکڑوں گم گشتہ راہ قلوب میں شمع ایمانی فروزاں ہوئی، کئی اداروں کی سرپرستی اور دینی جد و جہد سے معاشرہ میں اچھے و کار آمد افراد تیار کئے،2009ء میں منصب قضاءت کے لئے اھلیان بھٹکل کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور مولانا مرحوم نے اپنی ضعف و پیرانہ سالی کے باوجود تادم آخر اس اہم ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا.جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی علمی و دینی فضا کو ہموار کرنے میں اپنا خون جگر نچوڑا، یہی وجہ ہے کہ علاقہ کے تمام ندوی فضلاء کے سروں پر آپ کی دعاؤں اور شفقتوں کا سایے ہیں.
تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
مولانا کا جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور سے گہرا ربط و مخلصانہ تعلق تھا، آپ ہر دعوت و جلسہ میں بطیب خاطر جامعہ تشریف لاکر مفید مشوروں، پرخلوص دعاؤں اور کار آمد نصیحتوں سے نوازتے رہتے، امسال جامعہ کے پچیس سالہ تعلیمی و تجزیاتی کانفرنس کے موقع پر مولانا نے پرخطر حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی آمد سے جلسہ کو رونق بخشی تھی اور ہمارے کمزور دلوں پر ہمت و جرأت مندی، اخلاص و جفاکشی اور اللہ پر یقینِ کامل کے بیج بوگیے تھے، گویا یہ جامعہ بھی آپ کی دعائے خاص اور نظر کرم میں ہمیشہ سے تھا، آپ کی اس وفات پر جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کے تمام ذمہ داران و اراکین، اساتذہ و معاونین، طلبہ و فارغین سوگوار ہیں، آپ کے اہل خانہ، متوسلین و متعلقین کے ساتھ غم میں برابر کے شریک اور تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایانِ شان اجر عظیم عطا فرماکر جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے، امت مسلمہ کے لیے آپ کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے(تغمدہ اللہ بواسع رحمته و اسکنہ فسیح جانتہ).
عبیداللہ ابوبکر ندوی
ناظم جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک
Share this post
