محترم و مکرم ذمہ داران و اساتذۂ جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور مولانا ابوالحسن اکیڈمی۔
السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
چیف قاضی جماعت المسلمین اور صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل حضرت مولانا ملا محمداقبال ندوی - نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ - کی اندوہ ناک رحلت کی خبر سن کر بھٹکل و اطراف بھٹکل رنج وغم میں ڈوب گیا تو علاقہ کوکن بھی رنجور و مغموم ہوگیا،فی الحقیقت آپ کی وفات حسرت آیات ہم سب کے لئے کسی بڑے خسارہ کے مثل ہے، لیکن ہر انسان کو اپنی میعاد مکمل کرکے رب کے حضور حاضر ہونا قدرت کا نظام ہے، اس صبر آزما پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت ہمیں عطا کی تھی ،اسے اللہ تعالیٰ نے واپس لے لی۔
مولانا مرحوم کی پہچان ایک زبردست علمی شخصیت کے ساتھ اسلاف کے نمونہ کے طور پر تھی، جن کی علمی پختگی اورشریعت کے مزاج کے مطابق عملی زندگی کا بچہ بچہ گواہ ہے،تواضع اور سادگی صرف ان کی زندگی کا ہی حصہ نہیں تھا بلکہ ان کی سادگی ہرایک کے لئے لائق تقلید تھی، آپ کو پہلی نظر دیکھنے والا اور پہلی ملاقات کرنے والا یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ آپ اس قدر بڑے منصب پر فائز ہیں اور علم وعمل کے بحر بیکراں ہیں،سارے شرعی علوم پر مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ علم فلکیات پر گہری دسترس اور مضبوط گرفت تھی،بھٹکل کے تعلیمی ،اصلاحی،دعوتی،سماجی، معاشرتی،ہر میدان کے لوگوں کی تربیت میں آپ کا بڑا حصہ ہے،آپ کی وفات سے بھٹکل کی سنہری تاریخ کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔
اہل بھٹکل اور اہل کوکن مسلک ومشرب،اور مزاج ونسل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہیں ،اور دونوں علاقوں کے لوگوں میں باہمی ربط بھی گہرا ہے،خاص طور پر اہل علم کے درمیان یہ تعلق اور ربط کچھ زیادہ ہی ہےاسی ربط کی بناء پرعزیز القدرمولانا الیاس ندوی دامت برکاتہم کی دعوت پرمختلف پروگرام اور مشوروں میں بھٹکل کے سفر کے مواقع پیش آتے رہے ہیں،لہذا جب بھی بھٹکل جانا ہوتا تو مولانا مرحوم سے ملاقات کی سعادت اور ان سے استفادہ کا موقع نصیب ہوتا،مولانا کو ازہر کوکن جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن سے بڑی محبت تھی،نیز انجمن دردمندان تعلیم وترقی کی خدمات کو بھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،ماضی قریب میں مجمع الامام الشافعی العالمی کے ذریعہ فقہ شافعی کے ہونے والے سیمناروں کے مشوروں اور فکروں میں مولانا کے ساتھ باربار ملاقات اور ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا رہا،جس سے مولانا کی شخصیت مزید ابھر کر سامنے آنے لگی،چوں کہ مولانا صاحب الرای بھی تھے،اور قضاۃ کا طویل تجربہ ہونے کی بناء پر مولانا کا ہرفیصلہ دانشمندانہ ہوتا تھا۔کسی بھی مجلس میں مولانا کی موجودگی اس مجلس کی تقویت اور برکت کا سبب بن جاتی تھی۔
مولانا کے انتقال سے صرف بھٹکل اور اطراف بھٹکل میں ہی خلا پیدا نہیں ہوا بلکہ علاقہ کوکن بھی اس خلاء کو محسوس کررہا ہے،جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن اور انجمن دردمندان تعلیم وترقی کے ذمہ داران آپ کی کمی کو شدت سے محسوس کررہے ہیں۔نیزآپ کی اس وفات پر انجمن دردمندان تعلیم وترقی کے تمام ذمہ داران و اراکین، کارکنان و معاونین،سوگوار ہیں، آپ کے اہل خانہ، و متعلقین کے ساتھ غم میں برابر کے شریک اور تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایانِ شان اجر عظیم عطا فرماکر جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے، امت مسلمہ کے لیے آپ کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے(تغمدہ اللہ بواسع رحمته و اسکنہ فسیح جناتہ ).
دعاگو
مفتی رفیق محمد شفیع پورکر مدنی
صدر و اراکین انجمن دردمندان تعلیم و ترقی ٹرسٹ مھاڈ کو کن
Share this post
