فکروخبر کی خصوصی رپورٹ
سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جس طرح کا تاریخی احتجاج اہلیانِ بھٹکل نے درج کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یہ احتجاج کئی پہلوؤں سے کامیاب رہا۔ جن حالات میں یہ احتجاج منعقد کیا گیا اس کا فیصلہ کرنا بھی بڑے دل گردے کی بات ہے اور کیوں نہ ہوتا یہاں تو بات اب ملی تشخص کی ہے جس پربیداری کا ثبوت کمزور سے کمزور ایمان والے نے بھی دیا ہے جس سے پھر ایک مرتبہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ملی تشخص کی جو چنگاری ہمارے اسلاف چھوڑ گئے تھے الحمدللہ وہ بجھی نہیں ہے۔
ملک بھر میں اس کالے قانون کے خلاف احتجاجات کا نہ تھمنے والا سلسلہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی خبریں مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشیل میڈیاخصوصاً وھاٹس پر تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی ہیں۔ کئی شہروں میں احتجاجات پر امن رہے تو کہیں پر پولیس اور عوام کے درمیان پتھراؤ بھی ہوا جس کے نتیجہ میں گولیاں بھی چلیں اور کئی افراد جاں بحق بھی ہوگئے۔ بھٹکل سے قریبی شہر منگلورو میں احتجاج نے تشدد کی شکل اختیار کی جس کے بعد دو افراد پولیس کی فائرنگ میں جاں بحق ہوگئے۔ ان حالات میں تنظیم کا احتجاج کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں تنظیم نے مختلف میٹنگیں منعقد کیں اور اپنے فیصلہ کے تعلق سے ایک بار نہیں باربار سوچااوراس حساس مسئلہ پر تنظیم نے با لآخر احتجاج کرنے کا اپنا اٹل فیصلہ سنایا۔
تنظیم نے اپنے فیصلہ کے بعدبھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن سے رابطہ کیا جو بھٹکل کے اسپورٹس سینٹروں کا متحدہ پلیٹ فارم ہے۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے اس کے نظم ونسق کی پوری ذمہ داری فیڈریشن کو دے دی اور انہو ں نے شہر کے نوجوانوں کو جمع کرکے ایک گائیڈ لائن جاری کردی جس کے مطابق والینٹیرس ترتیب دئیے گئے، انہو ں نے بھی اپنی پوری ذمہ داری سمجھتے ہوئے فیڈریشن کا بھرپور تعاون کیا۔ جلوس کے شروع سے لے آخر تک مختلف رضاکار کھڑے تھے۔ کچھ رضاکار جلوس کے آگے تھے، کچھ جلوس کے درمیان اور کچھ جلوس کے پیچھے تھے، اس کے علاوہ جلوس کے دائیں اور بائیں بھی رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہو ں نے جلوس میں پورے نظم ونسق کا خیال رکھا۔
بھٹکل شہر حساس مانا جاتا ہے اور جس طرح کی خبریں یہاں کے تعلق سے میڈیا اور دیگر لوگوں کی زبانی سننے کو ملتی ہیں، ایسے میں ان خبروں کو سن کر یہاں آنے والے پولیس اہلکار بھی سنی سنائی باتوں پر یقین کیے رہتے ہیں۔ جلوس کو سنبھالنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری تیاریاں کرلیں تھیں۔ ہاتھوں میں ڈنڈے، سیفٹی گارڈ پہن کر اور جلوس کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کے پاس رسیاں بھی موجود تھیں لیکن بھٹکل کے ان فیڈریشن کے نوجوانوں نے پولیس کو یہ بہترین پیغام دیا کہ یہاں پر جلوس کو سنبھالنے کے لیے پولیس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کے ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داری بخوبی جانتے ہیں، سخت سے سخت حالات میں امن وامان کی بحالی کا بھی ہنر جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود فیڈریشن کے بینر تلے نوجوانوں نے نظم ونسق کا بھرپور خیال رکھا۔ ہزاروں کے اس مجمع میں کہیں پر بھی پولیس کو حرکت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ فیڈریشن کے اس نظم ونسق پر جہاں پولیس حیران ہیں وہیں ان کے اعلیٰ افسران بھی انگشت بدنداں ہیں۔ واقعی فیڈریشن کے اس اقدام سے شہر بھٹکل کے تعلق سے پائی جارہی غلط فہمیاں ضرور دور ہوئیں ہیں۔ اس جلوس کے ذریعہ حکومت کے ایوانوں تک جو پیغام پہنچانا تھا وہ پہنچ کر ہی رہے گا، ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے اس اخلاقی کردار سے پولیس اہلکاروں نے جس طرح سے تأثر لیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ فیڈریشن کے ذمہ داران او رجملہ نوجوانوں کا اس ملی خدمت پر مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل نے خصوصی شکریہ ادا کیا ہے اور امید کی ہے کہ مستقبل میں بھی وہ اسی طرح اپنے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت پیش کرتے رہیں گے۔
Share this post
