پورے پانچ سال بعد آروشی کے قاتل والدین(تلوار فیملی) مجرم قرار

دونوں کی سزا کا اعلان کل کیا جائے گا .قتل کے بعد معاملے کی جانچ اتر پردیش پولیس نے کی تھی . پولیس کو آروشی کے والدین ۔ والد راجیش اور نوپور تلوار پر شک تھا . راجیش تلوار کو 23 مئی 2008 کو گرفتار کیا گیا تھا .واردات کے قریب دو ہفتے بعد 31 مئی 2008 کو معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا گیا تھا . سی بی آئی نے 29 دسمبر 2010 کو معاملے کو بند کرنے کے لئے رپورٹ سونپ دی تھی . قابل اعتماد ثبوت کی عدم موجودگی میں سی بی آئی نے کہا ، \"کسی کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے . \'25 جون 2011 کو سماعت کے دوران عدالت کے احاطے میں راجیش تلوار پر حملہ ہوا ، جس کے بعد تلوار بیوی نے معاملے کو غازی آباد سے دہلی منتقل کرنے کے لئے درخواست داخل کی ، لیکن سپریم کورٹ نے اپیل خارج کر دی . اس درمیان ہیم راج عرف ایم پرساد بجھارے کی 43 سالہ بیوہ اور نیپال کے ارگھابجھارے نے سی بی آئی عدالت کو ایک درخواست سونپ کر الزام لگایا کہ ان کے شوہر کے قتل تلوار بیوی نے کی ہے .اس نے کہا کہ ہیم راج نے اسے بتایا تھا کہ اس کے تلوار اسکی اہلیہ کافی غصے والے ہیں ، جو چھوٹی ۔ چھوٹی باتوں پر اسے ڈانٹتے ہیں . وہ دیر رات تک پارٹیاں کرتے ہیں . اس کے مطابق ہیم راج نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ملازمت تبدیل کرنا چاہتا ہے ..کول نے حالانکہ کہا کہ اس نے کبھی ایسی چھری نہیں دیکھی ہے ، جس کا استعمال آروشی اور ہیم راج کے گلے کی رگ کاٹنے میں کیا گیا ہو . آخری سماعت میں آروشی کے ملزم والدین نے سی بی آئی کے اس نتیجہ کو مسترد کر دیا کہ اچانک غصے میں آ کر انہوں نے اپنی بیٹی اور نوکر کے قتل کیا تھی .

گورنرکرناٹک ایچ آر بھردوراج کی واپسی کے لئے مہم تیز

گلبرگہ۔25نومبر(فکروخبر/ذرائع ) چیف منسٹر سدرامیا کی زیر قیادت چیف منسٹر سدرامیا کی زیر قیادت ریاست کی کانگریس آئی حکومت اور اُس کے وزراء کے خلاف بر سرِ عام نکتہ چینی کرنے کے لئے ریاستی گورنر ایچ آر بھردوراج کو واپس طلب کرنے کی مہم تیز ہو چکی ہے ۔ سیاسی حلقوں میں یہ خبر گشت کر رہی ہے کہ بھردوراج کی جگہ کے روشیا کو کرناٹک کا گورنر مقرر کیا جانے والا ہے، بھردوراج نے سابق چیف منسٹر یڈی یورپا کی حکومت کی ستائش کرتے ہوئے اُسے موجودہ حکومت سے بہتر بتایا تھا ۔ نیز اُنہوں نے سدرامیا کابینہ کے بعض سینئر وزراء کے خلاف بھی بیان بازی کی جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہونے کا آندیشہ پیدا ہوا ہے ۔ عین لوک سبھا انتخابات کے سامنے گورنر کی جانب سے حکومت اور اُس کے سینئر وزراء کی تنقید سے کانگریس آئی کے لئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں ۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کانگریس اعلیٰ کمان پر ریاستی گورنر بھردوراج کی تبدیلی کے لئے مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ گورنر نے سدرامیا کابینہ کے سینئر وزراء آر وی دیشپانڈے ، کے جے جارج، امبریش اور الحاج قمرالاسلام کے علاوہ طبی وزیر تعلیم ڈاکٹر شرن پرکاش پاٹل کے خلاف برسرِ عام نکتہ چینی کی ہے ۔ لیکن صرف قمرالاسلام کا نام ہی سرخیوں میں لیا جارہا ہے ۔ واضح ہو کہ یونیورسٹی وائس چانسلر کے تقرر کے معاملے میں گورنر نے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم و سیاحت آر وی دیشپانڈے اور پولیس ملازمین کے تبادلوں کے لئے وزیر داخلہ کے جے جارج گھوڑوں کی ریس کا مشاہدہ کرنے کے لئے امبریش وزیر امکنہ کو گورنرنے تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ اُنہیں کے دباؤ سے چیف منسٹر کو سنتوش لاڈ وزیر اطلاعات و انفراسٹکچر سے استفادہ طلب کرنا پڑا ۔ گورنر کی اس روش سے ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومت سے ٹکراؤ کا ذہن بنا چکے ہیں ۔ 

دلی پر حکومت کرنے کا نریندر مودی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا
نئی دہلی کے اوکھلا حلقہ میں انتخابی جلسہ عام سے الحاج قمرالاسلام کا خطاب

نئی دہلی۔25نومبر(فکروخبر/ذرائع ) ممتاز قومی رہنماء الحاج قمرالاسلام وزیر بلدی نظم و نسق پبلک انٹر پرائزس وقف و حج اقلیتی بہبود حکومت کرناٹک نگران وزیر گلبرگہ ضلع نے کہا ہے کہ دلی ہندوستان کا دل ہے اور دل والوں کی نگری ہے ۔ دل والے اس بات کو ہر گز گوارہ نہیں کریں گے کہ دلی کا اقتدار نفرت پھیلانے اور فرقہ پرستی کو ہوا دینے والوں کے ہاتھوں میں چلا جائے ۔ الحاج قمرالاسلام دہلی اسمبلی انتخابات میں اوکھلا اسمبلی حلقہ کے کانگریس آئی اُمیدوار آصف محمد خان کے انتخابی جلسہ کو مخاطب کر رہے تھے جو کل رات جامع نگر میں منعقد ہوا ۔ الحاج قمرالاسلام نے مزید کہا کہ دلوں کو جوڑنے کا کام صرف کانگریس کرتی ہے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور سالمیت سیکولرزم سے باقی ہے ۔ اُنہوں نے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بی جے پی کے اُمیدوار نریندر مودی پر جارحانہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کی جمہوریت اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ اُنہوں نے نریندر موردی کو امیت شاہ کا صاحب اور آر ایس ایس کا صاحبزادہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی آر ایس ایس کی شاکھاہوں کے تربیت یافتہ سوئم سیوک ہیں ۔ اُنہوں نے دہلی کے عوام سے پرزور اپیل کی کہ وہ دہلی اسمبلی انتخابات میں سیکولرزم کی بقاء کے لئے کانگریس آئی کو برسرِاقتدار لائیں ۔ سندیپ دکشت ایم پی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آصف محمد خان کانگریس آئی اُمیدوار اوکھلا غیر معمولی صلاحیتوں کے متحمل اور ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کے عزائم رکھتے ہیں ۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ آصف محمد خان کی کامیابی کے بعد اوکھلا کی ترقی کے لئے بھر پور توجہ دی جائے ۔ کارپوریٹر منیش کے علاوہ کانگریس آئی کے مقامی عہدیدران نے بھی جلسہ کو مخاطب کیا ۔ الحاج قمرالاسلام صاحب کو اے آئی سی سی نے اوکھلا اسمبلی انتخاب میں مہم چلانے کے لئے نگران مقرر کیا ہے ۔الحاج قمرالاسلام صاحب نے بتایا کہ کانگریس آئی اُمیدوار آصف محمد خان جو سابق مرکزی وزیر عارف محمد خان کے بھائی ہیں کا موقف نہایت مستحکم ہے ۔ حلقہ اسمبلی اوکھلا میں کانگریس کے مقابل جنتادل یو سے مسلمان اُمیدوار دانش عام آدمی پارٹی بی ایس اپی اور بی جے پی کے اُمیدوران بھی میدان میں ہیں لیکن کانگریس آئی کی راست ٹکر بی جے پی سے ہے ۔ الحاج قمرالاسلام بیلگام اسمبلی سیشن میں شرکت کے لئے نئی دہلی سے واپس روانہ ہوئے ہیں بیلگام میں دو دن قیام کے بعد الحاج قمرالاسلام کانگریس آئی کی انتخابی مہم چلانے کے لئے دوبارہ نئی دہلی روانہ ہوں گے ۔ 

فہرست رائے دہندگان میں ناموں کے اندراج کیلئے 29؍نومبر آخری تاریخ

گلبرگہ۔25؍نومبر(فکروخبر/ذرائع )الحاج الیاس سیٹھ باغبان نائب صدر اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے پی سی سی آئی نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ کرناٹک کے تمام اسمبلی حلقوں میں فہرست رائے دہندگان پر نظر ثانی کا کام جاری ہے۔30؍اکتوبر کو عارضی فہرست رائے دہندگان شائع کر دی گئی ہے اور اسے رائے دہندوں کے مشاہدے کے لئے پولنگ بوتھس اور آنگن واڑیوں میں رکھا گیا ہے ۔ رائے دہندگان اپنی قریبی آنگن واڑی یا پھر پولنگ پر جاکر اس بات کا پتہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کے اور اُن کے افراد خاندان کے نام فہرست رائے دہندگان میں موجود ہیں یا نہیں ۔ ایسے رائے دہندگان جن کے نام کسی وجہ سے فہرست رائے دہندگان میں موجود نہیں ہیں اُنہیں اپنے ناموں کا فہرست رائے دہندگان میں دوبارہ اندراج کروانے کے لئے مقررہ درخواست فارمس داخل کرنے ہوں گے ۔ فہرست رائے دہندگان میں غلط ناموں کی اشاعت ہونے کی صورت میں اُن کی اصلاح کے لئے بھی مقررہ درخواست فارمس داخل کرنا ضروری ہے ۔ کرایہ کے مکانوں میں رہنے والے ساکنان کو بار بار مکان تبدیل کرنے پڑتے ہیں ۔ ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں کرایہ کا مکان تبدیل کرنے والے اصحاب کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اور اپنے افراد خاندان کے ناموں کو سابقہ علاقہ سے موجودہ علاقہ کی فہرست رائے دہندگان میں منتقل کرنے کے لئے مقررہ درخواست فارمس داخل کریں ۔ اور جن اصحاب کا انتقال ہو گیا ہے اُن کے ناموں کو فہرست رائے دہندگان سے حذف کرنے کے لئے بھی مقررہ درخواست فارمس داخل کئے جانے چاہئیں تاکہ آئندہ شناخت سے متعلق دستاویزات راشن کارڈ ، گیاس کنکشن، بینک اکاؤنٹ ودیگر معاملات میں کسی قسم کی دشواری درپیش نہ ہوسکے ۔ ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں جن کی عمریں یکم جنوری 2014کو 18سال مکمل ہو رہی ہیں ، کے ناموں کو بھی فہرست رائے دہندگان میں شامل کروانے کے لئے مقررہ درخواست فارمس داخل کئے جائیں ۔ جن رائے دہندگان کے نام فہرست رائے دہندگان میں موجود ہونے کے باوجود فوٹو الیکشن شناختی کارڈس جاری نہیں کئے گئے ہیں اُنہیں بھی مقررہ درخواست فارمس داخل کرنے چاہئے ۔ مذکورہ تمام درخواست فارمس داخل کرنے کی آخری تاریخ 29نومبر ہے دسمبر کے مہینہ میں موصولہ تمام درخواستوں کی جانچ کرتے ہوئے 6جنوری2014کو قطعی فہرست رائے دہندگان شائع کر دی جائے گی ۔ الحاج محمد الیاس سیٹھ نے مزید کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی موجودگی کا موبائل سے پتہ لگانے کی سہولت بھی مہیا کی ہے ۔ KAEPICٹائپ کرتے ہوئے اسپیس دیکر اپنے فوٹو الیکشن شناختی کارڈ کا نمبر درج کرتے ہوئے موبائل نمبر9243355223پر میسیج روانہ کر دیں۔ الیکشن کمیشن نے فہرست رائے دہندگان میں ناموں کے اندراج کے لئے آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی مہیا کروائی ہے ۔ http//ceokarnataka.kar.nic.inویب سائٹ پر جاکر رجسٹرآئن لائن پر کلیک کریں تمام تفصیلات کا اندراج کرنے کے بعد اپنی فوٹو، عمر، رہائشی پتہ وثبوت کے دستاویزات کو اسکیان کر کے اپلوڈ کریں۔ بعد میں بھرتی کئے گئے درخواست فارم کا پرنٹ نکال کر ریونیو دفاتر یا مقامی الیکشن آفیسر کے دفتر میں داخل کریں ۔ الحاج الیاس سیٹھ نے مزید کہا ہے کہ موجودہ حالات میں فہرست رائے دہندگان میں ناموں کے اندرار اور فوٹو الیکشن شناختی کارڈ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ خصوصاً مسلمانوں کے لئے یہ بیحد ضروری ہے ، فہرست رائے دہندگان میں ناموں کے اندراج غلط ناموں کی اصلاح اور ناموں کی منتقلی متوفیان کے ناموں کو حذف کروانے کے لئے عام مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے ۔ الحاج الیاس سیٹھ نے کہا ہے کہ تمام سماجی کارکنان تعلیمی فلاحی سماجی اداروں کے ذمہ داران علماء و دانشوران کو اس کام کو ایک اہم ملی فریضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہئے۔ خصوصاً ائمہ کرام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں اور مساجد میں عامۃ المسلمین کو اس اہم کام کی تکمیل کے لئے بھر پور توجہ دلائیں ۔

Share this post

Loading...