، صدر جامعہ اسلامیہ بھٹكل وقاضی جماعت المسلمین بھٹكل
منجانب: بھٹكل مسلم جماعت دبئ
مؤرخہ ۲۴/ ذی القعدہ ۱۴۴۱ ھ مطابق ۱۵/ جولائی ۲۰۲۰ء كی شام ڈھلتے سورج كے ساتھ ساتھ یہ روح فرسا خبر ہم سب پر بجلی بن كر گری كہ آسمانِ علم وفقہ كا آفتاب تقریبا نصف صدی تك ضوفشانی كرنے كے بعد اور اپنے نور ِعلم وفكر كی كرنوں سے ہزارہا لوگوں كو منور كرنے كے بعد غروب ہوا، یعنی خانوادۂ ِملا كے چشم وچراغ، جامعہ كے ہونہار سپوت، شہر بھٹكل كے علماء كے سرخیل، عالمِ ربانی صدر جامعہ اسلامیہ بھٹكل وقاضی جماعت المسلمین بھٹكل حضرت مولانا ملا محمد اقبال صاحب اس عالمِ آب وگل كو خیر باد كہہ كر اپنے مالك حقیقی سے جا ملے۔
یقینا موت ایك برحق اور اٹل حقیقت ہے جس سے كسی كو مفرنہیں ؎
|
موت سے كس كو رُستگاری ہے |
آج ان كی كل ہماری باری ہے |
بقا ودوام صرف اللہ رب العزت كی ذات كو ہے ،لیكن كچھ افراد كی موت نہ صرف اہلِ خانہ كے لئے بلكہ پوری قوم وملت كے لئے ایك عظیم صدمہ ہوتی ہے اور دلوں كو مغمومورنجور كرجاتی ہے، بلا شبہ مولانا كی موت بھی محض گھریلو حادثہ نہیں بلكہ پوری قوم وملت كے لئےایك عظیم سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے ، مولانا كی ذات بابركت امت كے لئے اس دورِ پر فتن میں، تپتے صحرا میں ابرِ سایہ فگن اور گھٹاٹوپ تاریكی میں چمكتے ہوئے ستارہ كی مانند تھی۔ ان كا وجودِ مسعود اس پر آشوب دورمیں ملت كے لئے "بیاباں كی شبِ تاریك میں قندیلرہبانی" كے مانند تھا ،جن سے سینكڑوں بلكہ ہزاروں بندگانِ خدا كو رہنمائی، ٹوٹے دلوں كو تسكین اور بھٹكے ہوئے آہؤوں كو سوئے حرم كی راہ ملتی، مولانا نے اپنے نفسِ گرم سے خلقِ كثیر كے دلوں كی سرد انگیٹھی كو گرمایا ، خفتگان كو بیدار كیا اور مردہ دلوں میں زندگی كی لہر دوڑا دی۔مولانا كی زندگی مثالی تھی ان كو اللہ نے گونا گوں صفات سے نوازا تھا ۔وہ خلوص وللہیت، تقوی وطہارت، خشیتوانابت،زہد وقناعت، رضا وتوكل، صبر وثبات اور جہدِ مسلسل كے پیكر تھے۔موصوف اپنی نرم روی وخندہ لبی، خوش خُلقی وملنساری، تواضع وانكساری، حق گوئی وبیباكی، شفقت ومحبت، ایثار وہمدردی، قربانی وجانْفشانی، دلجوئی وغمگساری میں ایك مثال تھے۔ مولانا سلف صالحین كے اخلاق عالیہ كا عمدہ نمونہ اور اوصافِ حمیدہ كے پیكر تھے ، انكے چہرہ پر ہمیشہ مسكراہٹ كھیلتی اور اپنی شیریں لبی اور خندہ دہنی سے ہر ملنے والے كا دل موہ لیتے اور اسكے دل میں بس جاتے۔
مولانا كی اگر علمی وتعلیمی زندگی كا تذكرہ كیا جائے تو مولانا نے اپنے تعلیمی سفر كا آغاز قوم نوائط کے سو سالہ تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین بھٹکل سے كیا، پھر جامعہ کے قیام کے بعد دینی تعلیم كے جذبہ سے سرشار ہوكرجامعہ اسلامیہ بھٹكل میں داخلہ لیا، وہاں سے فارغ ہو كر اعلیٰ تعلیم كے لئے ندوة العلماء لکھنو کا رخ کیا، ندوة العلماء سے سندفراغت حاصل كرنے كے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے "ادیبِ کامل" کا امتحان پاس کیا۔
ندوہ سے فراغت كے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے كچھ عرصہ بعد فاروقی مسجد میں امامت کے فریضہ سے بھی منسلک ہوئے اور عمر عزیز کا ایک طویل عرصہ اس عظیم خدمت میں گذارا۔ جامعات الصالحات میں بھی آپ نے کئی سالوں تک تدریسی خدمات انجام دیں، اور امت كی ماؤوں كو دینی تعلیم سے آراستہ كرنے میں اہم كردار ادا كیا اس طرح مولانا کی پوری زندگی دین کی آبیاری اور تعلیم و تعلم میں گذری۔
سابق قاضی جماعت المسلمین بھٹكل مولانا محمد احمد خطیبی صاحب كے سانحۂ ارتحال كے بعد جماعت المسلمین كی طرف سے مولانا كو منصب قضا پر فائز كیا گیا۔ اسی طرح سابق صدرِ جامعہ جناب ڈاكٹر ملپا علی صاحب كی رحلت كےبعد مولانائے موصوف كو جامعہ اسلامیہ بھٹكل جیسے عظیم ادارہ كا صدر منتخب كیا گیا۔
احكامالجنائز، وراثت کے مسائل اور خصوصا فلکیات کے علم میں آپ كو یدِ طولیٰ حاصل تھا- آپ کا مرتب کردہ دائمی نقشۂ اوقات الصلاة آپ کا ناقابل فراموش كارنامہ ہے۔
مولانا كی اچانك رحلت ہم سب كو سوگوارورنجور كر گئی اور ہر شخص اس صدمۂجانكاہ سے نڈھال ہے ؎
موت اسكی ہے كرے جس كا زمانہ افسوس
اس غمناكوالمناك موقع پر ہم عہدیداران واراكینِ انتظامیہ وممبرانبھٹكل مسلم جماعت دبئ بھیاہل خانہ ومحبین ومخلصین كے غم میں برابر كے شریك ہیں اور آج کے اس تعزیتی اجلاس میں اس تعزیتی قرارداد کے ذریعہ مولانا موصوف کے تمام اہل خانہ، تمام متعلقین اور جماعت المسلمین بھٹکل، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور تحفیظ القرآن بھٹکل کے تمام ذمہ داران کی خدمت میں تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئےدعا گو ہیں كہ اللہ رب العزت تمام پسماندگان واعزہ واقارب كو صبر جمیل عطا كرے ، اور مولانا كی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس كو پر كرے اورانكی خدمات كو قبول كرتے ہوئے اعلیٰ علیین میں انہیں جگہ نصیب فرمائے ، آمین ثم آمین۔
فقط والسلام
شركائے رنج وغم
صدر، جنرل سكریٹری، اراكین انتظامیہ وممبران
بھٹكل مسلم جماعت دبئ
Share this post
