سوامی نے اسکے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ہندوؤں کو شرمندہ ہونا پڑھے بلکہ مذہبی رواداری ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے،اور اس سے آپس میں محبت قائم ہوتی ہے او ر تعلقات استوار ہوتے ہیں سوامی جی نے کہا کہ جہاں تک بات گائے ذبح کرنے والوں کو مٹھ میں دعوت دینے کی ہے تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہندوؤں کا بھی ایک بڑا طبقہ گائے کا گوشت بڑے مزے سے کھاتاہے ،ہم انہیں بھی مندر میں آنے سے نہیں روکتے ،ہم صرف انہیں سمجھا سکتے ہیں ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ گوشت نہ کھائیں،ان پر زبردستی نہیں کر سکتے ، انہوں نے مندرمیں نماز پڑھنے کو لے کر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ نماز مندرمیں نہیں پڑھی گئی تھی بلکہ کھانے کے زون میں ادا کی گئی تھی ، مٹھ نے کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ حالات کو بگاڑنے کے لئے اس طرح کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں ،سوامی جی اپنے اس فیصلہ کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے آپسی بھائی چارگی کو فروغ ملے گا ، یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ یہ کام ان کا شروع کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ہندو رہنماؤں نے اس طرح بھائی چارگی کی مثالیں پیش کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے ، 1904میں ہمارے سینئر سوامی جی کو حاجی عبد اللہ نے اپنے گھر بلا کر ان کا اکرام کیا تھا اور تحائف سے نوازا تھا ،اور کہا کہ منترالیہ مٹھ کی زمین بھی ہندوؤں کی جائیداد نہیں تھی اسے ایک مسلمان بادشاہ نے آٹھ سو سال قبل راگھویندرا مٹھ کے سوامی جی کو ہدیہ میں دی گئی تھی ،میں بھی انہیں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں ، مزید کہاکہ بھٹکل کاسرگوڈ سمیت دیگر کئی مقامات پر پروگرام میں انہیں مدعو کیاجاتا رہا ہے ،جہاں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا جا تا ہے اور بہت سی مساجد کے افتتاح میں بھی میں نے شرکت کی ہے ،یہ جو باتیں پھیلائی جا رہی ہیں محض ہندو مسلم بھائی چارگی کو ختم کرنے کیلئے ہے اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کی نفرت پیدا کرنے کے لئے ہے ،میں نے جو کیا ہے اس سے ہندو مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کیا ہے۔
Share this post
