تین طلاق پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہوگا ، فیصلہ کے بعد آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی : مولانا ولی رحمانی(مزید اہم ترین خبریں)

'' واضح رہے کہ چیف جسٹس جسٹس جے ایس كھیهر کی قیادت والی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے تین طلاق کے معاملہ پر تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ عدالت کا فیصلہ بورڈ کے موقف کے خلاف آنے پر کیا 1980 کی دہائی کے شاہ بانو کیس کی طرح ہی حالات پیدا ہو سکتے ہیں ، تو مولانا رحمانی نے کہا کہ '' اس بارے میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ اس وقت کے حالات دیگر تھے، اس وقت حالات دیگر ہیں۔ جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آ جاتا ، اس وقت تک کچھ کہنا یا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
تین طلاق پر ملک کی میڈیا کے رخ کی شدید تنقید کرتے ہوئے مولانا رحمانی نے کہا کہ '' میڈیا کے رخ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کا سب سے اہم معاملہ تین طلاق ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ٹی وی پر یہی بحث ہورہی ہے۔ میڈیا کا اپنا بزنس ہے اور وہ اسی کو ذہن میں رکھ کر بحث کر رہا ہے۔ '' بورڈ پر اٹھائے جا رہے سوالات کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ '' بورڈ کے بارے میں لوگ اپنے اپنے اعتبار سے باتیں کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ بورڈ سخت ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ لوگوں کو جو کہنا ہے وہ کہیں گے، ہم لوگوں کو بولنے سے تو نہیں روک سکتے۔مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ تین طلاق کے معاملہ پر مسلم سماج کا موقف پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' مسلم سماج کا موقف واضح ہے، بورڈ کے حق میں چار کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دستخط کئے ہیں، ان میں دو کروڑ 72 لاکھ خواتین کے دستخط شامل ہیں، اس سے واضح ہے کہ سماج کا موقف کس طرف ہے۔ '' تین طلاق کے معاملہ پر پاکستان اور کچھ دیگر مسلم ممالک کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا حوالہ دیے جانے پر مولانا رحمانی نے کہا کہ '' غلط حقائق پیش کئے جا رہے ہیں، چیزیں موجود ہیں، لیکن صحیح طریقہ سے بتائی نہیں جا رہی ہیں۔ لوگ پاکستان کا نام لے رہے ہیں، ہم کوئی پاکستان کے دم چھلے تھوڑے ہیں۔'' ملک میں گئوركشا کے نام پر جاری تشدد کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے رحمانی نے کہا کہ '' اس طرح کے واقعات انتہائی سنگین ہیں، اس پر بحث نہیں ہو رہی ہے، سبھی خاموش ہیں، اس کو لے کر حکومتوں کو سخت اقدامات کرنے چاہئے

گؤ رکھشا کے نام پر جاری مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ۲۸؍جولائی کو دھرنا

مہاراشٹر مسلم ریزرویشن عوامی کمیٹی اورنگ آبادمتحرک

اورنگ آباد:21مئی(فکروخبر/ذرائع )مہاراشٹر مسلم ریزرویشن عوامی کمیٹی اورنگ آباد نے فیصلہ کیا ہیکہ آئے دن ملک میں ’’گؤ رکھشا‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو بے دردی سے جان سے مارے جانے والی وارداتوں کے خلاف۲۸؍جولائی ۲۰۱۷ء بروز جمعہ ایک عظیم الشان دھرنا ڈویژنل کمشنر آفس کے سامنے دیا جائے ۔گؤ رکھشا کے نام پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم اور قتل و غارتگری کے واقعات پر ایک پُر ہُول سانٹا طاری ہے۔ تعجب اور دُکھ تو اس بات پر ہے کہ یہ کارروائی قانون کے محافظوں کی آنکھوں کے سامنے دن دھاڑے ہو رہی ہے۔ قانون کے محافظوں کی مو جودگی میں قانون اور انسانیت کا جنازہ نکا لا جا رہا ہے۔ جنکو مارا جا رہا ہے وہ بے چارے جانوروں کے بیو پاری ہیں یا جانورپالنے والے جو دودھ کا کارو بار کرتے ہیں۔ ان تمام واقعات پر حکومت خاموش ہے۔ میڈیا مہر بلب ہے اور مسلم قیادت و علماء کرام ورطۂ حیرت میں ہیں یا پھر وہ تین طلاق کے شرعی جواز کی تلاش اور مباحث میں غرق ہیں ۔ ہم نہایت ادب واحترام سے اپنے اکابرین ،علماء کرام ،قائدین ملت دانشوروں اور اہل قلم حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان ہلاکت خیز واقعات کی جانب بھی توجہ فرمائیں۔ ان واقعات سے اُمت میں بڑی بے چینی واضطراب ہے۔ عیدالاضحی پھر قریب آرہی ہے۔ مسئلہ گائے کا نہیں گوشت کا ہے۔ اب یہ مظالم صرف گائے کے ذبیحہ پر ہی نہیں دیگر جانوروں کی قربانی پر بھی ہو رہے ہیں حتیٰ کہ بھینس کے ذبیحہ پر بھی ظلم و ستم ڈھا یا جا رہاہے۔ اُمت کا نوجوان طبقہ حیران ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ مظالم کے سدِّ باب کی تلاش میں ہے۔ یہ تلاش کہیں شدید ردِعمل کی صورت اختیارنہ کرلے اس لئے مہاراشٹر مسلم ریزرویشن عوامی کمیٹی اورنگ آباد نے طئے کیا ہے کہ ۲۸؍جولائی ۲۰۱۷ ء کو اورنگ آباد شہر و ضلع کا ایک عظیم الشان دھرنا ڈویژنل کمیشنر آفس کے سامنے دیا جائے اور گائے کی رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف احتجاج درج کروایا جائے ۔اس سلسلے میں ہم بلا لحاظ مذہب وملت ملک کے اہم قائدین ،ارکا ن پا رلیمان،اہم صحا فیوں ، اہلِ قلم و دانش اور ملی جماعتوں کے سر بر اہان کو مکتو بات روانہ کرکے ان کی توجہ اس سنگین مسئلہ کی جانب مبذول کروار ہے ہیں جس طرح کمیٹی نے پچھلی بار مسلم ریزرویشن پر تمام ملی جما عتوں ،سیاسی پارٹیوں اور تمام مکا تب فکر اور غیر مسلم حضرات کا تعاون حاصل کر کے بے مثال جلوس نکالا تھا اسی طرح اس معاملے میں بھی ہم تمام کے تعاون اور سر پر ستی میں گؤ رکھشا کے نام پر مسلم کشی کے خلاف دھرنا دیکر سرکار اور ملک کے عوام کی توجہ اس ظلمِ عظیم کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں ۔ اُمید ہے کہ آپ کا تعاون ،سرپرستی اور دعائیں ہمارے ساتھ رہیں گی ۔مہاراشٹر مسلم ریزرویشن عوامی کمیٹی اورنگ آبادنے اپنے جاری کردہ بیان میں اپیل کی ہے کہ اس مسئلہ پر ملک میں عوامی بیداری اور انتظامیہ کو متحرک کرنے کیلئے بااثر افراد آگے آئیں اور عوام اس مسئلہ پر ہمارا ساتھ دیں۔

مولاناآزادکے نظریۂ باہمی ہم اہنگی کی آج اشد ضرورت ہے:محمد وسیم راعینی

اودھ ویلفیئر فاؤنڈیشن وقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے مولاناابولکلام آزاد پریک روزہ سمینار کا انعقاد

لکھنؤ۔21مئی(فکروخبر/ذرائع )بھارت رتن ایوارڈ سے سرفراز مولانا ابوالکلام آزاد کے نزدیک سوراج اور آزادی سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہندو مسلم اتحاد تھا۔وہ مسلمانوں کومذہب پر قائم رہتے ہوئے جنگ آزادی میں حصہ لینے کی دعوت دیتے تھے ۔ ان کا دائرہ ادب، سیاست، مذہب، تاریخ اور فلسفے کے میدان تک پھیلا ہواتھا۔مولاناآزادکی نظریۂ باہمی ہم اہنگی کی آج اشد ضرورت ہے۔مولانا آزاد محب اردوزبان بھی تھے، اردو کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے دوران مولانا آزاد نے ہندوستانی زبان کو سرکاری کام کاج کی زبان بنانے کی حمایت کی تھی مگر ملک کے بٹوارے کے بعد مولاناکااردو کا دعوی کمزورپڑ گیا۔ان خیالات کا اظہاراودھ ویلفیئر فاؤنڈیشن وقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے جے شنکرپرساد ہال،قیصرباغ میں منعقد سیمیناربعنوان’مولانا ابواکلام آزاد‘ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
سمینار کے آغاز میں اودھ ویلفیئر فاؤنڈیشن کی صدر اور کنوینر پروگرام صبیحہ سلطانہ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں گلدستے پیش،اوراپنے استقبالیہ خطبے میں صبیحہ سلطانہ نے مہمانوں کے استقبال کے بعد سوسائٹی کے اغراض ومقاصد اور روز اول سے آج تک کا سوسائٹی کا سفر تفصیل سے بیان کیا اور مستقبل کے عزائم بھی ظاہر کئے ،اور اپنے بہی خواہوں اور محبان اردو کا بھی شکریہ اداکیا۔اس موقع پر استقبالیہ کمیٹی کی صدر شحکثما سلطانہ اور کوآرڈیٹررضیہ پروین،اورضیاء اللہ صدیقی نے بھی مہمانوں کا استقبال گلدستہ پیش کر کے کیا۔سمینار کا آغاز تلاوت کلام پاس سے کیا گیا۔اس کے قمرسیتاپوری،عبدالنعیم قریشی نے نعت پاک سے ماحول کومنورکردیا۔
سمینار میں خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی سابق ریاستی وزیرانیس منصوری نے وڈاکٹر تسنیم کوثراسسٹنٹ پروفیسر کرامت حسین گرلس کالج نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے طور پر دنیا میں شناخت بنانے والے محی الدین احمد کی مذہبی معلومات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اخبار الہلال میں ان کے تحریرکردہ مضامین غیبی آواز کی مانند مسلم قوم کو متاثر کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد مسلمانوں کو مذہب کی راہ سے جنگ آزادی میں کود پڑنے کی دعوت دیتے تھے ۔ مولانا کی مادری زبان عربی تھی لیکن ان کی اردو تحریریں بھی لاجواب تھیں۔ ان کے الفاظ کا ایک طلسم ہوتا تھا۔ آزاد کا دائرہ ادب، سیاست، مذہب، تاریخ اور فلسفے کے میدان تک پھیلا ہواتھا۔انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد کے تعلق سے مولانا آزاد کی کوششوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں اسے لے کر کتنی تڑپ تھی۔ مولانا نے رام گڑھ میں منعقد ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر آج ایک فرشتہ آسمان سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینارسے یہ اعلان کرے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر حاصل کر سکتا ہی، بشرطیکہ ہندو مسلم اتحاد ختم ہو جائے تو میں سوراج کے بجائے قومی اتحاد کو منتخب کرونگا۔
مہمان اعزازی مولانا عبداللہ چترویدی(ویداچاریہ)اور قدرت اللہ(بانی لال بہادر شاستری انٹرکالج) نے کہا کہ آج جو لوگ مسلمانوں کو قومیت کے سبق پڑھا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ مولانا آزاد کا سبق پڑھ کر وہ اپنے ایمان کو تازہ کر سکتے ہیں۔ مولانا آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن دہلی کی جامع مسجد کے در و دیوار ہندوستان کے مسلمانوں کو جاگتے رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اگر آپ جاگنے کے لیے تیار نہیں تو کوئی بھی طاقت آپ کو جگا نہیں سکتی،مولانا عبداللہ چترویدی نے مزید کہاکہ کہ مولانا آزاد کی شخصیت کے سینکڑوں پہلو تھے ۔مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد کی مذہبی، سماجی اور تعلیمی کارکردگی اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ سماجی اتحاد کے پیروکار تھے ۔مولانا آزاد ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے،وہ علامہ شبلی کے فیض یافتہ، انکی فکر کے نمائندے،دین کے پرجوش داعی، اور فکر ندوہ کے ترجمان تھے،انھوں نے علمی اور ثقافتی سطح پر ایسی قابل ذکرخدمات انجام دیں، جوہندوستان کے لئے طرۂ افتخار ہیں،انکی سیاسی بصیرت،ہندومسلم اتحاد کا نظریہ وطن کے لئے بے انتہاقربانیوں کا تسلسل کی افادیت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔
مقالہ نگار صحافی ضیاء اللہ صدیقی اورنثاراحمدجنرل سیکرٹری نیوکلیس سوسائٹی نے مولانا ابوالکلام آزاد اور جدید اردو صحافت پر کہا کہ محض 12 سال کی عمر میں مصباح اخبار کے ایڈیٹر مولانا آزاد جدید اردو صحافت کے روح رواں تھے ۔ وہ سیاست اور معاشرے میں مکمل تبدیلی چاہتے تھے ۔ اردو صحافت کوبلندی پر پہنچانے کی کوشش تو سرسید احمد خاں نے کی تھی۔مولانا آزاد ان سے بہت متاثر تھے لیکن آگے چل کر مولانا نے اپنی راہ خود منتخب کی۔انہوں نے کہا کہ مولانا نے اپنے ایک مضمون میں اخبارات کو زندہ ہادی قرار دیا تھا۔ مولانا صحافت کو آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے تھے ۔ وہ دوسرے فریقوں کی مالی مدد سے چلنے والے اخبارات اور رسالے کو صحافت پر بدنما داغ سمجھتے تھے ۔ مقالہ نگار وصحافی غفران نسیم اور ڈاکٹرعبدالقدوس ہاشمی نے کہا کہ مولانا نے الہلال اخبار کو خوبصورت بنانے کے لئے تصاویر پر بھی زور دیا۔ وہ پہلا اردو اخبار تھا جس میں تصاویر کا استعمال کیا گیا۔ مولانا آزاد نے اردو صحافت کو ایک فکر دی، مگر افسوس کی بات ہے کہ مولانا نے جو چراغ روشن کیا تھا وہ مدھم پڑ رہا ہے ۔ اردو صحافت کا معیارگر رہا ہے ۔ موجودہ اردو صحافت کو دوبارہ اپنا وقار حاصل کرنے کیلئے مولانا کی وراثت کو اپنانا ہوگا۔ سیمینار کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر شبانہ اعظمی اورعبدالنعیم قریشی نے مشترکہ طور پرکہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے ۔ مولانا آزاد کی شخصیت کے تین پہلو ہیں۔ سب سے پہلے ، وہ ایک ماہر تعلیم تھے ۔ دوسرے ، وہ ایک بہت اچھے ادیب تھے اور تیسرے ، سیاسی اعتبار سے ان کی شخصیت مثالی تھی ۔ مولانا آزاد نے ہی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ملک سے جانے والے مسلمانوں کو تاریخی تقریر کرکے روکا تھا۔ مسلم قوم کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے ۔
سمینار کے دیگر مقررین ماسٹر قمرالھدی،شہریارجلالپوری،ارجن پنڈت،الیاس منصوری ،ڈاکٹرشوبھا ترپاٹھی،رمضان سیتاپوری وغیر ہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی پو ری زندگی سراپا جہد و پیکار سے پُر ہیں ، آپ کی شخصیت کے بہت سے پہلونظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مولانا آزادایک ماہرتعلیم،ادیب،اسکالر، مفکر، دانشور، صدق ووفا کے پیکر،مجاہدآزادی،محب وطن اور کامیا ب سیاسی رہنما کی حیثیت سے جا نے جاتے ہیں ۔ سمینار میں شہریارجلال پوری،ڈاکٹرعبدالقدوس ہاشمی،شوبھاترپاٹھی،کواعزازسے اورتمام مقالہ نگاران کوسرٹیفیکٹ دیکر اعزاز سے نوازاگیا۔سمینار کے آخر میں کنوینر پروگرام وسوسائٹی کی صدر صبیحہ سلطانہ نے مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہمیں آپ تمام محبان اردو سے امید ہے کہ آپ سبھی حضرات مستقبل میں بھی ہماری اور ہماری سوسائٹی کی رہنمائی فرماتے ہیں گے۔اس کے بعد اودھ ویلفیئر فاؤنڈیشن کی جانب سے شاندارظہرانے کاانتظام کیا گیااورپھراسی کے ساتھ ہی انہوں نے پروگرام کے ختم کا اعلان بھی کیا۔

جمعےۃ علماء ہند کے نائب صدر ،دارالعلوم دیو بند کے استاذ حدیث مولانا ریاست علی بجنوریؒ کے انتقال پر ملال پر

جمعےۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے اظہار تعزیت

مبئی۔21مئی(فکروخبر/ذرائع )جمعیۃ علماء ہند کے نا ئب صدر ،دار العلوم دیو بند کے ما یہ ناز استاذ حدیث، مولانا ریاست علی بجنوری ؒ کے سانحہ ارتحال پر جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے انکی موت کو موت العالم موت العالم قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ مولانا ریاست علی بجنوری کی وفات سے علمی دنیا میں جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے مولانا مرحوم کی دارالعلوم دیو بند میں ایک عرصے سے حدیث کی خدمت انجام دے رہے تھے اس دوران انہوں نے بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں بطور خاص ایضاح البخاری شرح بخاری شریف قابل ذکر ہے اس کے علاوہ مولانا مرحوم نے دارالعلوم دیوبند کے لئے جو ترانہ لکھا ہے وہ ایک یادگار ترانہ ہے مولانا علیہ الرحمہ جمعےۃ علماء ہند سے والہانہ تعلق رکھتے تھے بطور خاص فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی، امیر الہند قاری سید محمد عثمان منصور پوری صدر جمعےۃ علماء ہند اور جانشین فدائے ملت مولانا سید محمود اسعد مدنی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند سے بڑی قربت رکھتے تھے جمعےۃ کے تمام اجلاسوں میں مولانا مر حوم بنفس نفیس شرکت فر ماتے تھے اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فر مائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ مولانا محمد ذاکر قاسمی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء مہاراشٹر نے تمام ضلعی شہری مقامی یو نٹوں کے ذمہ داران سے گذارش کی ہے کہ مولانا مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کریں ۔

جمعیۃ علماء ضلع سندھو درگ کے زیر اہتمام جلسہ بیداری مہم

مولانا ندیم صدیقی ایڈوکیٹ تہور پٹھان کا خطاب 

ممبئی۔21مئی(فکروخبر/ذرائع )سلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے جمعیۃ علماء کی سر گر میاں مختلف شعبہ حیات کو محیط ہے۔کا نفرنسوں بڑے بڑے اجتماعات ،سیمناروں ،اشاعتی پرو گراموں اور میڈیا کے ذریعہ اہم قومی ملی مسا ئل پر جمہوری طریقے سے اپنی آواز بلند کرنا حکومت کے ایوانوں اور رائے عامہ پر اثر ڈالنا ،کمزوروں اور مظلوموں کے مفادات کے لئے جد و جہد کر نا جمعیۃ علماء کی سر گرمیوں کا ایک بنیادی پہلو ہے۔ یہ باتیں جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے کل گزشتہ تعلقہ دیو گڑھ ضلع سندھو درگ میں منعقدہ اجلاس سے کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک جن نازک حالات سے گذر رہا ہے اور فرقہ پرست عناصر جس طرح جگہ جگہ پر اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی کا عفریت پوری طرح عوام میں سرایت کر گیا ہے ۔انہوں سندھو درگ کے ضلعی ،مقامی اور تعلقہ جات کی جمعیتوں کے ذمہ داروں سے اپیل کی کہ جمعیۃ کے کا ز کو مضبوط و مستحکم کریں ۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تہور خان پٹھان ( سکریٹری لیگل سیل جمعیۃ علماء مہا راشٹر) نے کہادہشت گر دی کے الزام میں جن مسلم نو جوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ بر سوں سے اپنے نا کر دہ گناہوں کی سزاء بھگت رہے ہیں جمعیۃ علماء ایسے بے قصوروں کی رہائی کے لئے عدالت میں قانونی لڑائی لڑ رہی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ایسے بے قصوروں کے لئے اس وقت تک قانونی لرائی لڑتی رہے گی جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا ۔
اجلاس کا آعاز قر آن کریم کی تلاوت اور نعتیہ کلام سے ہوا ۔مولانا محمد عالم گیر قاسمی ناظم مدرسہ سبیل السلام ساونت واڑی نے اجلاس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اجلاس کی کاروائی چلائی۔اس اجلاس کو کا میاب بنانے کے لئے مولانا محمد اعجاز پنہا لیکر سکریٹری جمعیۃ علماء علاقہ کو کن نے سندھودرگ اور تعلقہ دیو گڑھ کا کئی مرتبہ دورہ کر کے رائے عامہ ہموار کیا اور اجلاس کو کا میاب بنا نے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ اس اجلاس کو کا میابیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے مولانا عبد الستار بغدادی ( صدر جمعیۃ علماء ضلع سندھو درگ ) مولانا عبد الروف ( جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ضلع سندھو درگ ) ظفر خان ،سر فراز نائک،عابد نائک ،حافظ زید،اور مقامی تنظیم جماعۃ المسلمین کے صدر ،جنرل ،سکریٹری ،اور انکی ٹیم نے بھر پور جد و جہد کیا ۔حافظ محمد ناظم نے مہمان کرام اور شرکاء اجلاس کا شکریہ ادا کیا۔ 

Share this post

Loading...