ہندوتوا وادی تنظیم کے کارکنان نے  بنگلورو جارہی بس روک کر ہنگامہ کھڑے سے مسافروں کو ہوئی شدید تکلیف ، کیا اس طرح کے واقعات پر پولیس روک لگانے میں ہوگی کامیاب۔۔؟؟

سلیا 22 اگست 2021 (فکروخبرنیوز) سرکاری بس روک کر اس پر سوار ایک مسلم مرد اور ایک ہندو خاتون کو بس سے اتار کر سلیا پولیس تھانہ لے جانے کا واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد اس کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی ہے۔

دی نیوز منٹ میں شائع خبر کے مطابق نوشاد نامی شخص سرکاری بس کے ذریعہ بنگلورو جارہا تھا۔ اسی بس میں ایک ہندو خاتون بھی سفر کررہی تھی۔ ہندو جاگرنا ویدیکے کے چند کارکنان پر الزام ہے کہ انہوں نے کار کے ذریعہ  بس کا پیچھا کرتے ہوئے بس روکا اور اس پر سوار ہندو خاتون اور نوشاد کو اتارتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ ایک ساتھ سفر کررہے ہیں۔ سلیا کے پولیس انسپکٹر نوین چندر جوگی کے مطابق ہم نے ان کے فون چیک کیے لیکن اس مرد اور خاتون کے درمیان کسی طرح کا کوئی رابطہ کے سراغ نہیں ملے۔

پولیس کے مطابق بس پر سوار ہی ایک شخص نے مرد اور خاتون کو آپس میں بات چیت کرتے دیکھا تو ہندو توا تنظیم کے کارکنان کو اطلاع دی اور انہوں نے سلیا میں بس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے روک کر ہنگامہ کھڑا کردیا۔

وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ سلیا پولیس تھانہ کے باہر جمع ہیں ۔ پولیس انسپکٹر کا کہنا ہے کہ اس مرد اور خاتون نے اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی جس کے بعد انہیں اسی بس کے ذریعہ بنگلورو بھیج دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ ہندوتوا کارکنان کو چلتی بس روکنے پر کیوں مجبور ہیں۔ کیا ایک مسافر اب دوسرے مسافر سے بات چیت بھی نہیں کرسکتا ہے؟ اس طرح کے واقعات جنوبی کنیرا میں پیش آتے رہتے ہیں اور بے جا ہنگامہ کھڑا کرنے کی وجہ سے متعلقہ مسافروں کے ساتھ ساتھ دیگر مسافروں کو بھی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نوشاد ایک انٹرویو کے لیے بنگلورو جارہا تھا۔ اب اس طرح طئے شدہ پروگرام کے تحت کوئی سفر کرلے اور درمیان راستہ میں ہندو توا وادی تنظیموں کی جانب سے بس روک کر ہنگامہ کھڑا کرنے پر مسافروں کو بھاری نقصانات اٹھانے پڑسکتے ہیں۔ اسں طرح کے بے جا ہنگامہ کھڑے کرنے والوں کے خلاف پولیس کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ بلا خوف وخطر سفر کرسکیں۔

Share this post

Loading...