یہ بہت دکھ دینے والا ہے. آج کے لیڈروں کو واجپئی کی طرح خوش مزاج ہونا چاہئے. ''گزشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار کو دیئے انٹرویو میں اڈوانی نے کہا تھا، 'فی الحال جمہوریت کو کچل نے والی طاقتیں زیادہ مضبوط ہیں'. اس بیان کا ذکر کرتے ہوئے جب ایڈوانی سے پوچھا گیا کہ کیا یہ موجودہ تناظر میں کی گئی تبصرہ تھی تو ایڈوانی نے کسی بھی طرح کی قیاس آرائی کو مسترد کر دیا.
۶۰ فیصد مسلم آبادی غلاظت اور چوڑے سے دو چار ہ
سہارنپور ۔20جون(فکروخبر/ذرائع ) عام دن ہوں کہ اہم تیوہار ہوں ہمارے ضلع کے افسران مسلم بستیوں پر توجہ دینا پسند ہی نہی کرتے ہیں دوسری جانب یہاں کی مسلم قیادت بھی ناکارہ بنی رہتی ہے جس وجہ سے مسلم علاقہ اکثر چوڑے اور غلاظت سے لبا لب رہتے ہیں مساجد کے باہر بھی گندگی کی بہتات دیکھی جاتی ہے؟ سہارنپور میں مسلم آبادی آج بھی دلتوں سے بد تر حالات سے دو چار ہے ضلع کے سیکڑوں گاؤں میں مسلم آبادی گندی بستیوں میں رہنے کو مجبور ہے صاف پینے کا پانی اور بجلی بھی ان علاقوں میں میسئر نہیں ہے عوامی صحت کے نقط ء نظر سے بھی یہاں کوئی انتظام نہی ہے سرکاریں آر ہی ہے اور جا رہی ہے ان کا پرسان حال کوئی نہی صرف شہر سہارنپور میں ہی کمیلا کالونی ، آزاد کالونی ، پیر والی گلی، حکم شاہ کالونی ، حلال پور ، حسن پور ، مانک مؤ اور شہر کے بیچ کے درجن بھر علاقہ ایسے ہیں کہ جہاں ہر وقت گندا پانی بھرا رہتا ہے ان علاقوں میں عوام کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے ، پہچان پتر نہیں ہے صحت کو محفوظ رکھنے کیلئے سرکاری طور پر اسپتالوں کا انتظام تو دور بچوں کی پڑھائی کے لئے سرکاری طور پر سرکاری اسکولوں کا ہی بندو بست نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ علاقہ دلت بستیوں سے بھی دلت ہے تو اسمیں کوئی شک نہیں شہر کے ان علاقوں میں اکثر پانی بھرا رہتا ہے پانی کی نکاسی کا نگر نگم کی جانب سے معقول بنددو بست نہیں ہے ان علاقوں کے ۲۵ فیصد گھر آج بھی گندے پانی کے بیچ رہ کر گزر بسر کرنے کومجبور ہیں حکومتوں کے نمائندے اکثر ان علاقوں میں آکر اپنے جلسے اور پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں مگرا فسوس کی بات ہے کہ وقت نکل جانے کے بعد وہد دوبارہ ان علاقوں کا رخ نہیں کرتے کمیلا کالونی کا علاقہ ،حکم شاہ کالونی اور حبیب گڑھ کے علاقہ بیماریوں کا گڑھ بنے ہیں اس جانب حکام نے اور سرکاری عملے نے آج تک کوئی بھی دھیان نہیں دیا ہے ووٹ مانگنے کے لئے بھکاریوں کی طرح سیاسی پارٹیوں کے نمائندے یہاں لگاتار بیس سالوں سے آرہے ہیں لیکن ان مسلم بستیوں کی حالت زار پر آج تک کسی کو بھی ترس نہیں آیا علاقہ کے ذمہ دار مسلم رہبر سینئر وکیل جناب عبید الرحمان کاکہنا ہے کہ سب سے زیادہ مسلم ووٹ ان ہی علاقوں میں موجود ہے اور سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ ان ہی علاقوں میں آکر مسلمانوں کو سبز باغ دکھاتی ہیں اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد پھر پانچ سال کے لئے غائب ہو جاتی ہیں اپنی بے باکی کے لئے مشہور قابل سیاست داں جنا ب عبید الرحمان کا کہنا ہے کہ ملک کی آزادی میں جس قوم نے سب سے زیادہ حصہ داری کی اور سب سے زیادہ قربانیاں دی آج وہی قوم ذلیل و خوار ہو رہی ہے اور وہی قوموجودہ حکومتوں میں گندی بستیوں میں اپنی زندگی گزارنے کو مجبور ہے سینئر وکیل جناب عبید الرحمان کا کہنا ہے کہ اگر سرکار کو زرا بھی شرم ہے تو ان علاقوں میں آکر ان علاقوں میں وزرا کو بھیج کر سروے کرائیں اور بتائے کہ ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے لئے سرکار نے آج تک کون کون سی مراعات مہیہ کرائی ہیں آپکا کہناہے کہ آج مسلم علاقہ ۶۰ فیصد سے زیادہ غلاظت سے گھرے ہوئے ہیں جو ہم سبھی کے لئے قابل تشویش بات ہے ؟
ضلع کا ٹریفک نظام آج بھی ۵۰سال پرانا
سہارنپور ۔20جون(فکروخبر/ذرائع ) ہمارا ملک کتنی بھی ترقی کرے اور سہارنپور کے سیاسی لیڈران سہارنپور کی بہتری کے کتنے بھی دعوے کیوں نہ کرے مگر یہ سچ ہے کہ آج بھی ترقی کے معاملہ میں سہارنپور کمشنری ۳۰ سال پیچھے ہے اور ٹریفک کے معاملہ میں ضلع کا ٹریفک نظام آج بھی ۵۰ سال پرانا ہی لاگو ہے جس کی جو مرضی ہے وہ اسی طرح سے سڑکوں پر اپنی گاڑیوں کو اپنی مرضی کے مطابق تیز رفتار سے دوڑانے میں مست ہے دوکانداروں نے اور ٹرکوں ، ٹیمپو اور بسوں والوں نے سڑکوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں پیدل گزرنے والے راہگیروں کا سڑکوں پر گزر مشکل ہے جگہ جگہ سڑک حادثات کی بھرمار ہے مگر اس کے باوجود بھی ضلع حکام اور سیاست داں خاموش تماشائی بنے ہیں ۔ پولیس اور انتظامیہ کی لاپرواہی کے نتیجہ نے ضلع کے اہم چوراہوں پر اور اہم سڑکوں پر تیز دوڑتی بسوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، کاروں اور ٹرکوں کی زد میں آکر صرف دو ماہ کے وقفہ میں موٹر سائیکل ، ٹیمپو اور سائیکل سوارپانچ درجن سے زائد افراد اپنی جان گنواں چکے ہیں جبکہ سیکڑوں لوگ زخمی ہو کر مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضلع میں نظم اور نسق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ہر کوئی پچاس سے لے کر ستر کی اسپیڈ سے اپنے وہیکل کو سڑکوں پر دوڑانے میں مشغول ہیں چوراہوں پر کھڑے ٹریفک پولیس کے لوگ بائیک سواروں کو جانچ کے نام پر روکتے ہیں ان کے چالان کرتے ہیں اور انسے رشوت وصولتے ہیں جبکہ تیز رفتار بڑی گاڑیوں سے اُلجھ نے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہے کمزور لوگوں پر رعب غالب کرنا اور کمزوروں کو ستانا ضلع انتظامیہ اور پولیس کی اپنی خوبی ہے ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران پچھلے بیس سالوں سے اس ضلع میں ٹریفک کا نظام چست دورست کرنے میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں حالات اتنے بد تر ہو چلے ہیں کہ اب سڑکوں پر عام آدمی کا پیدل گزر بھی محفوظ نہیں رہا ہے مگر شرم کی بات ہے کہ عوام کی تباہی دیکھکر بھی حکومت میں بیٹھے لوگ اور افسران اس طرح کے حادثات پر خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں ۔
Share this post
