میں اس وقت آپ کے سامنے دو مناظر پیش کرنے جارہا ہوں جس کو پڑھ کر آپ شاید ہی میری تحریر کو اپنے اعتماد کے وسیع دامن میں جگہ دیں ۔
وہ شخص فون پر ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرکے وھاٹس اپ میں ڈال دیا تھا، انسان جب بے حیا ہوجاتا ہے اور شرم سے مکمل طورپر جب ناطہ توڑ لیتا ہے تو پھر اسے نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کیا کررہا ہے، سنئے ....
ہیلو..سامنے سے جواب آیا...کون؟ ...جی میں وہی جو ابھی آدھے گھنٹے قبل آیا تھا...(سامنے والا) اچھا کیا بات ہے؟؟....کیا وہ چلی گئی ؟؟(سامنے والا) نہیں ابھی گھر ہی میں ہے ....اچھاٹھیک ہے ،میرا ایک دوست بھی آنا چاہتا ہے.... (سامنے والا) کوئی بات نہیں جلد ی آؤ....مگر پیسہ میرے ہاتھ میں دینا...(اس کے بعد اُس نوجوان نے کچھ کہا ہے جس کو میری ضمیر گوارہ نہیں کرتی کہ اُس کا تذکرہ کرکے اپنے قلم کی نوک کو میلا کروں)
دراصل یہ عورتوں کے دلال اور گاہک کے بیچ میں ہوئی گفتگو ہے ،جس کو گاہک نے ریکارڈ کرکے وھاٹس اپ کے ذریعہ منظر عام پر لاکر نہ صرف اپنے گھناؤنی سوچ اوربے غیرتی کا ثبوت دیا بلکہ گناہ کرنے کے بعد نڈر بن کر اس کا اعلان بھی کررہا ہے اور اُن نوجوانوں کو راستہ بتارہاہے جو اب تک ان جیسی غلط حرکتوں سے کوسوں دور ہیں۔
ایک طرف یہ واقعہ تھا جو کئی دنوں سے ذہن میں کھٹک رہا تھا اور ایک واقعہ آج کا ہے کہ شہر کے ایک معروف تجارتی ادارے نے کیک مقابلوں کا انعقاد کیا، اور اس مقابلے نے جہاں ہماری ماں اور بہنوں کی تین تین وقت کے نمازوں کو برباد کیا بلکہ ، مردوزن کے ملاپ نے عوام کو حیرت میں ڈال دیا کہ آخر یہاں کیاہورہاہے۔
دونوں واقعات کو ذہن میں رکھئے اور سوچئے کہ ہم آخر ذلت کے کس پڑاؤ پر آکر اپنے خیمے لگارہے ہیں؟
وہ نوجوان اس طر ح کی ویڈیو منظر عام پر لاکر کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اس کا مجھے علم نہیں، لیکن واقعی کوئی دلالی کررہاہے تو اس کے روک تھام کے لیے قانون ہے ، شہر کی تنظیمیں ہیں، ان تک مع ثبوت پہنچ جاتے اور شکایت کرتے تو اس کے سد باب کے لیے کوئی راہ نکل لاتے۔
دوسرے واقعہ میں.. حلال تجارت واقعی باعث ثواب ہے ، اور پھر تجارت کے فروغ کے لئے آفر دینا اور نت نئے پروگراموں کا انعقاد کرنا اس سے بھی انکار نہیں ہے، مگر شرعی حدود میں رہ کر ...
اب اگر کیک مقابلے میں ہماری بہنیں ایسا حصہ لیں کے ان کو پردہ کا خیال نہ رہے ، اور پھر تین تین نمازیں قضا ہوجائے ،بلا فرق ومذہب ملت جہاں غیر محرم مرد وں کی ایک بھیڑ ہو وہاں ہماری عورتیں تماشہ بن جائیں تو سوچئے کہ تنقید کریں بھی تو کس پر ؟؟ جس نے محفل سجایا اس کو کوسیں یا پھر جنہوں نے محفل کو رونق بخشی ان پر ترچھی نگاہ ڈالیں..
کسی زمانے میں پڑھی ہوئی ایک تحریر ذہن کے درینچوں سے کھٹکھٹا رہی ہے اس میں کسی نے شرم وحیا کی بہترین تصویر کھینچی ہے ۔۔
شرم و حیا وہ جذبہ جو انسان کو نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے ، حدیث میں ہے کہ ’’حیا سراسر خیر ہے‘‘ اس کے برعکس جو شخص حیا کے جذبے سے نا آشنا ہو ، اس کے لے نیکی کرنا اور برائی سے بچنا بہت مشکل ہے، ایک شخص اپنے بھائی کو نصیحت کررہاتھا کہ شرم کرو، تو آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ اسے چھوڑدو کیوں کہ ایسے شخص کے بار ے میں کہا گیا ہے ’’ جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘
لیکن اس کے ساتھ ہی حق بات کے اظہار میں شرم و حیا سے کام لینے کو منع کیا گیا ہے، بلکہ اس بات کو اسلام کے منافی قرار دیا ہے ، کیوں کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا، اس لئے حیا کے درست تصور کو سمجھتے ہوئے اس جذبے کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے۔ جذبۂ حیا در حقیقت انفرادی اور قومی اخلاق کا پاسبان ہے اور ضمیرکی اصل قوت اس جذبے سے بنتی ہے ،کسی غلط حرکت کسی بے جا اقدام اورکسی لغوگوئی کے راستے میں یہی جذبۂ حیاء ہے جو روک بنتا ہے ، یہی ہے جو آپ میں احساس ذمہد اری ابھارتا ہے ، اخلاقی تقاضوں کا لحاظ پیدا کرتا ہے۔ سوسائٹی کی اعلیٰ قدروں کا احترام ابھارتاہے یعنی حیا کا میدان عمل صرف جنسی تقاضوں کا دائرہ نہیں، بلکہ ساری اخلاقی زندگی میں اس کا دخل ہے، یہ نام ہے اس روک کا، جو فطرتاً ہر انسان میں برائی ، ظلم اور تہذیب سے گرئی ہوئی حرکات کے سدباب کے لیے کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی ہے، اسی لئے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہے۔
آج شرم وحیا کا دامن تار تار ہوچکا ہے، میں یہ کسی خاص واقعے کی وجہ سے نہیں کہہ رہا ہوں، گذرتے ایام کے ساتھ مغربیت کا اثر جو ہمارے معاشرے میں پیوست ہورہاہے اس کے پیشِ نظر مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ دلال جو کوئی بھی ہو اگر وہ عورتوں کے غربت کا یا پھر تنہا عورتوں کی جنسی بھوک کو مٹانے کے لئے اپنے ہی گھر میں دلالی کا دکان کھول بیٹھا ہے تو اس کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پوری قوم کو تباہی اور بربادی کے جانب لے جارہا ہے اور موت موت ہے کب آکر دبوچ لے اس کا ہمیں علم نہیں ،سانس کے رکنے تک توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔۔
شرم و حیا کا فلسفہ اور منطق بولنے بیٹھ جاؤں تو شاید ہی کسی کو بات سمجھ میں آئے اسی لئے ایک سیدھی بات اپنی ماں بہنوں اور پھر ان کے سرپرستان سے کہوں کہ ، میں کسی کو تنقید کا نشانہ بناؤں اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، مجھے اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا، اپنی بہن کو حیا کے بارے میں بتا کر اس کو قابو میں کرنا ہوگا، ایک شوہر پر یہ لازم ہوگا کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہے اپنی زوجہ کو قابو میں کرنا ہوگا، ایک باپ اپنی بیٹی کو سمجھانا ہوگا۔ تب جاکر ممکن ہے ہماری عورتیں بازار کی زینت بننے کے بجائے اسلامی زیور سے مزین ہوکر گھر کی خوبصورتی کو دوبالا کریں۔
بیہقی میں ابن عمرؓ سے روایت کردہ اس حدیث پر غور کریں ’’ حیا اور ایمان کو ایک جگہ رکھا گیا ہے (یعنی ایک دوسرے سے وابستہ ہے) ان میں سے جب ایک کواٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ‘‘ اور ابن عباسؓ کی روایت میں یوں ہے کہ ان میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتار رہتا ہے ‘‘
ہمیں ایسے کیک کی کیا ضرورت ہے جو بے حیائی کی وجہ سے ایمان کو بھی لے اُڑے اور پھر ہم تجارت کے نام پر بھلا ایسی بے حیائی کا بازار کیوں سجائیں جہاں ہمارے ایمان کا سودا ہورہاہو۔ سوچنے کی بات ہے نا؟
Share this post
