سعودی عربیہ میں اسلام قبول کرکے لوٹنے والے شخص کا قتل

مذکورہ واردات 19نومبر کی صبح پانچ بجے منظر عام پرآئی۔ بتایا جارہاہے کہ فیصل 20؍ نومبر کو سعودی عربیہ لوٹنے والا تھا ، جب اپنے سسر اور ساس کو تیرور ریلوے پر اسٹیشن پر ریسیو کرنے جارہا تھا تو چند شرپسندوں نے اس کا گھیراؤ کرتے ہوئے اس پر جان لیوا حملہ کردیا۔ اس کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ فیصل کواس کے اہلِ خانہ ہی کی جانب سے قتل کیے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں جن کے زعفرانی تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے۔ تقریباً ایک ماہ قبل مقامی مسلمانوں نے فیصل کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کا خیال رکھیں جس پر اس کا کہنا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے ہر معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہے ، اگر وہ مجھے قتل بھی کرنا چاہیں تو انہیں ان کی حالت ہی پر چھوڑدو ۔بعض ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق سلام قبول کرنے کی وجہ سے اسے قتل نہیں کیا گیا بلکہ اپنے رشتہ داروں او رپڑوسیوں کو اسلام کی دعوت دینے پر اس کے رشتہ دار اس سے ناراض تھے اور شاید اسی وجہ سے اس کا قتل کردیا ۔ ملحوظ رہے کہ فیصل سعودیہ عربیہ کے ریاض شہر میں ملازمت کے دوران اس نے اسلام کا بہت قریب سے مطالعہ کیا اور آٹھ ماہ قبل اسلام قبول کیا۔ اگست میں گھر واپسی کے بعد اس کے بیوی پریا اور اس کے دس سال سے کم عمر تینوں بچوں نے بھی اسلام قبول کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فیصل چاہتا تھا کہ اس کی ماں میناکشی بھی اسلام قبول کرے، سعودی عربیہ جانے سے پہلے مقامی مسلمانوں سے درخواست کی تھی کہ اس کی ماں کے قبول اسلام کے لیے کوئی انتظام کیا جائے۔ فیصل کی ماں میناکشی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ فیصل اپنے رشتہ داروں میں اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اس کے چچا ، چچی اور اس کے دو بچیوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا اور اس کے بعد سے اسی ضلع میں مقیم ہیں لیکن میرے ہی بیٹے کو اسلام قبول کرنے پر نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے ۔ فیصل کے والد کرشنن نائر کا کہنا ہے کہ اس نے اسلام اپنے اختیار سے قبول کیا ہے۔کسی نے اس پر زبردستی نہیں کی لیکن میں نے اسے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی۔ نائر نے مزید کہا کہ فیصل کے اس فیصلہ سے اس کے کچھ رشتہ دار ناراض تھے۔ فیصل اپنے والدین کے گھر کے کچھ ہی فاصلہ پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کرایہ کے مکان میں رہتا تھا اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی خیال رکھا کرتا تھا ، فیصل کے ایک اور پڑوسی کا کہنا ہے کہ اگست میں فیصل کے سعودی عربیہ سے لوٹنے کے بعد اس کے اہلِ خانہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو قتل کرنے کی بھی دھمکی دی تھی لیکن فیصل نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ پریا اور اس کے تینوں بچوں کے اسلام قبول
کرنے خواہشمند تھا،اس کی بیوی بھی اس کے فیصلہ کو سمجھتے ہوئے اپنے تینوں بچوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگئیں ، اس کے پڑوسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصل نے اپنے بیوی اور بچوں کو سعودی عربیہ بھی لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ یاد رہے کہ پولیس نے فیصل کے قتل کے معاملہ میں چار افراد کو حراست میں لیا ہے جن کا تعلق زعفرانی تنظیموں سے بتایا جارہا ہے۔

Share this post

Loading...