بھٹکل16؍جولائی 2024(فکروخبرنیوز) رابطہ تعلیمی ایوارڈ 2024 کا تقسیمِ انعامات کا پروگرام آج صبح انجمن گراؤنڈ پرشروع ہوا۔ جس کے تحت سالِ گذشتہ ایس ایس ایل سی ، پی یو سی ، گریجویٹ اورمدارس کے درجۂ عالمیت کے آخری سال میں ممتاز نمبرات سے کامیاب طلبہ وطالبات کے درمیان ایوارڈ تقسیم کیے گیے۔
واضح رہے کہ اس کی دوسری نشست آج شام ساڑھے چار بجے منعقد ہونے والی تھی لیکن تیز ہواؤں اور بارش کے پیشِ نظر یہ نشست کل شام تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
اس کی پہلی نشست آج صبح گیارہ بجے شروع ہوئی جس میں مہمانِ خصوصی ، مفسِّر قرآن اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق ترجمان حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی دامت برکاتھم نے کلیدی خطاب فرمایا جس میں انہوں نے تعلیمی میدان کو تربیت سے جوڑنے پرقوم وملت کی ترقی کی ضمانت قرار دیا ۔ اپنے انوکھے اندازمیں مولانا نے ان افراد کو بھی گھیرا جو بغیر تربیت صرف تعلیم پر زور دیتے ہیں اور ترقی کے خواہاں ہیں۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ کرپشن پڑھے لکھے لوگ ہی انجام دے رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کیے ہوئے ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں کا اسکیام کرتے ہیں اور ملکوں کا بجٹ کھاجاتے ہیں۔ مولانا نے اسی پس منظر میں کہا کہ صرف مارک شیٹ کی وجہ سے کسی کو پڑھا لکھا کہا جاسکتا ہے لیکن اسے تعلیم یافتہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ تعلیم یافتہ شخص جھوٹ ، خیانتداری سے دور رہتا ہے اور یہ شخص معاشرہ میں ایک بہترین انسان ہوتا ہے ۔ مولانا نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کی بھی فکر کی جائے اور تربیت ان اخلاقی قدروں کی حفاظت کی نام ہے جس کو یوروپ نے نکال باہر کردیا ہے۔
بھٹکل اور اہالیانِ بھٹکل کے متعلق اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں بھٹکل کے مسلمانوں کی ایک خاص پہچان ان کے دین سے تعلق اوران کی اپنی تہذیب کے نتیجہ میں ہے جس کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کا اپنا ایک کلچر ہے جس کے بغیرچاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں زندگی نہیں گذارتے ہیں، اس میں بھٹکل کے مسلمانوں کے لیے بڑے فوائد ہیں جس کی حفاظت ضروری ہے۔
مولانا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اکثر اسکول صرف تعلیم دے رہے اور تربیت کے میدان میں وہ بہت پیچھے ہیں جس کا اعتراف تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کو ہے اور جہاں تعلیم سے تربیت کو الگ کیا گیا تو پھر تعلیم کا جوہر ختم ہوگیا۔ تعلیم کے لیے ملک بھرمیں اسلامی اسکول کے نام سے ادارے قائم ہیں جنہیں مسلم اسکول کہا جاسکتا ہے لیکن ہر اسکول کو اسلامی اسکول نہیں کہا جاسکتا۔ مولانا نے کہا کہ موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی میں ہرچیز تک آسانی کے ساتھ رسائی نے ہمارے بچوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اگرملک کے سنبھالنے والوں کومندر اور مسجد کے مسئلہ میں نہ الجھے ہوتے توان کا سب سے بڑا ایجنڈا ملک کے نوجوانوں کو اس کی ترقی کے لیے آگے بڑھانے کے مواقع فراہم کرانا ہوتا ۔ وہ نوجوانوں کو بتاتے کہ کیسے ملک کو سوپر پاور اور وشواگرو بنایا جاسکتا ہے۔ آج فخرکیا جارہا ہے کہ ملک کی معیشت 5 ٹریلین تک پہنچ چکی ہے اوریہ کہنے والا اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی پانچ کلو چاول کی محتاج ہے ۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کس قدر ترقی کررہا ہے۔ آپ کارپوریٹ اداروں کی ترقی دکھاکر باشندوں کی ترقی ثابت نہیں کرسکتے۔
مولانا نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیم اداروں کے ذریعہ بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنی اخراجات میں کمی کرکے اپنے دولت کی حفاظت کی جائے، خصوصاً شادی بیاہ پراخراجات کم ہوں اور پھر اسی دولت کے ذریعہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جائے۔
مولانا نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ایوارڈ صرف تعلیم میدان میں ترقی پر نہ دیئے جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تربیتی میدان میں بھی طلبہ وطالبات کی ترقی دیکھی جائے۔
قاضی مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی نے رابطہ کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ خصوصاً طالبات اپنی طرف سے متعین کردہ تعلیمی ہدف کو پہنچ رہی ہیں جو آپ کے لیے بہت بہت مبارک ہو لیکن اس بات پر بھی انہیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان کے لیے لازم کردہ شریعت شریعت کی تعلیم میں آپ کہاں کھڑی ہیں جس پر آپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
نائب قاضی جماعت السلمین بھٹکل مولانا محمد انصار صاحب ندوی مدنی نے کہا کہ قرآن مجید کی پہلی وحی کا تعلق تعلیم سے ہے جس کے حصول کے لیے بغیر دینی اور دنیوی کی تفریق کیے اللہ کو راضی کرنے کوششیں ہونی چاہیے۔ مولانا نے تعلیمی میدان کے امتحان کے ساتھ ساتھ آخرت کے امتحان کی طرف بھی طلبہ وطالبات اور سرپرستان کی توجہ مرکوز کی اور اس کے لیے تیاری کرنے کی فکر دلائی۔
جناب عتیق الرحمن منیری نے کہا کہ خلیج میں مقیم بھٹکلی احباب گرچہ وہ اپنے شہر سے دور رہتے ہیں لیکن ان کا دل بھٹکل سے اٹکا ہوا رہتا ہے۔ اگر کوئی چیز بھٹکل میں پیش آتی ہے تو ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی میدان میں ہمیں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے لیے ہمیں مل جل کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام میں ہم سے کوئی غلطی ہوسکتی ہے اس پرتنقید کے بجائے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور تنقید بھی ہو تو برائے تعمیر ہونا چاہیے تخریب نہیں۔
پروگرام کا آغاز دانیال ابن اشفاق کی تلاوت سے ہوا۔ نظامت کے فرائض مولانا تنویر جوشیدی ندوی نے انجام دیئے۔
Share this post
