تعلیمی مراحل کی تکمیل میں دشواریوں کا سامنا کرنے والے طلباء کا مستقبل ہوتا ہے تابناک
بھٹکل 03/ اگست 2019(فکروخبر نیوز) مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کا دوش دے کرملک میں کئی ساری قوموں نے ترقی کی جبکہ اس ملک کے لیے مسلمانوں نے بہت ساری وہ چیزیں دیں جس پر آج پورے ملک کو فخر ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا رونا رونے سے قوم کے مسائل حل ہونے والے نہیں ہے۔ یہ بات ابھی بھی سچائی پر مبنی ہے کہ تعلیمی میدان میں جس انداز سے مسلمانوں کو ترقی کرنی چاہیے وہ انہوں نے نہیں کی ہے لیکن ہم میں چند افراد ایسے ہیں جو ہزاروں پر بھاری ہیں۔ ان کی تعلیمی زندگی کے مراحل سننے پر حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھا جاتا ہے اور ان کی طرح بننے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔
رابطہ سوسائٹی بھٹکل کی جانب سے تعلیمی میدان میں نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والوں کو ہر سال ایوارڈ سے نواز جاتا ہے۔ اس تقسیمِ ایوارڈ کے پروگراموں سے کئی ایک طلباء نے اپنے اندر علمی ذوق پیدا کرکے ترقی کے منازل طئے کیے ہیں۔
امسال اس ایوارڈ کے پروگرام میں بطورِ مہمانِ خصوصی انجمن ِاسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے شرکت کی جنہوں نے اپنی تقریر سے نہ صرف نوجوانوں کو جھنجھوڑا بلکہ ناامیدی کے دلدل سے باہر آکر کچھ کرگذرنے کا داعیہ پیدا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے اعظم گڑھ کے اسلم خان اور بیلگام کی ڈاکٹر جبین کی مثالیں پیش کرکے نہ صرف نوجوانوں کو جگایا بلکہ جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنے پر کامیابی کے قدم چومنے کی یقین دہانی بھی کی۔ پہلی مثال انہوں نے عظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے اسلم خان کی دی جن کے والدین نے ممبئی میں آکر رہائش اختیار کرلی تھی۔ ابھی اسلم خان کے بچپن کا زمانہ جب ان کے والد بڑی بڑی عمارتوں میں پاؤ (بریڈ) بیچاکرتے تھے اور اس کی آمدنی سے اپنا گھر چلاتے تھے۔ اپنی تعلیم کا آغاز انجمن اسلام کے اردو میڈیم اسکول سے کی۔ انہوں نے انجمن اسلام صابو صدیق سے اپنی ڈگری بھی مکمل کرلی جس کے بعد امریکہ کے ایک بہترین کالج میں ان کا داخلہ ہوا جہاں سے انہوں نے ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی مکمل کرلی۔ اس کے بعد وہ ہندوستان لوٹا اور آئی ٹی بیس کمپنی کی بنیاد ڈالی، اب سترہ ممالک میں وہ کام کررہا ہے اور سات سے زائد انجینئر اس کے ماتحت کام کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندری مودی نے بھی ان کے کام کی سراہنا کی ہے اور صدر جمہوریہ نے ملک کی چوٹی کی کمپنیوں کے سی ای اوز پر مشتمل ایک وفد بھیج کر ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا تھا۔
اسی طرح انہوں نے بیلگام سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر جبین کا تذکرہ کیا، جن کے تعلیمی مرحلہ کی کہانی بھی عجیب ہے، جنہوں نے بھی اپنے تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے لیے کئی پاپڑ بیلے اور بڑی کوششوں کے بعد انہوں نے اپنے تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں پیش آنے والی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے طلباء کے لیے کھانا تک پکا یا۔ جب کالج کے مطبخ میں ہڑتال کی گئی تو میں نے پرنسپال سے مل کر کھانا پکانے کی بات کی اور انہیں کسی طرح راضی کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے بعد کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ جس کے بعد اپنی جہد مسلسل کے ذریعہ اس نے کامیابی کی منزلیں طئے کیں۔
اسی طرح کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں طلباء موجود ہیں جنہوں نے بے سروسانی کے دور میں اپنی تعلیم مکمل کی اور آج انہیں دیکھ کر قوم کے ان مایہ ناز فرزندوں پر فخر ہوتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے سے ان کو تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بہت سے راستہ کھولیں ہیں لیکن آگے بڑھ کر ملت کی ان طلباء کی مثالوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
Share this post
