قاضی جماعت المسلمین مولانا اقبال ملا ندوی کے سانحہ ارتحال پر بھٹکل و اطراف کی جمعہ مساجد میں بیک وقت تعزیتی نسشت کا انعقاد

17جولائی 2020(فکروخبرنیوز) بھٹکل میں لاک ڈاون کے باعث  اجتماعات پر پابندی  کے دوران  نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع کو غنیمت سمجھتےہوئے  آج قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا اقبال ملا ندوی کی وفات  پربھٹکل و اطراف کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جملہ جمعہ مساجد میں ترجمہ کے بجائے بیک وقت تعزیتی نشست  کا انعقاد کیا گیا  قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا اقبال ملا ندوی کی وفات سے جمیع بھٹکلی احباب صدمہ میں ہیں ، ان کی وفات کے بعد سے  بھٹکل و بیرون کے اداروں اور مشہور شخصیات کی طرف سے تعزیتی کلمات کا سلسلہ جاری ہے ،

  جامعہ مسجد بھٹکل میں مولانا کے سانحہ ارتحال پر منعقدہ تعزیتی اجلاس  میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالعظیم قاضیا ندوی نےمولانا کے سانحہ ارتحال کو  بھٹکل کے لئے ایک عظیم خسارہ قرار دیا  ،انہوں نے کہا کہ مولانا نے جو نصف صدی تک بھٹکل کے لئے خدمات انجام دی ہیں انہیں بھٹکل کبھی فراموش نہیں کر سکتا ،اور ان کی ذندگی کا یہ دور بھٹکل کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا

مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول ندوی نے  مولانا کی دینی ملی سماجی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ مولانا اور ان کے ساتھیوں مولانا غزالی  ؒ اور مولانا صادق اکرمی ندوی مد ظلہ نے اپنی حکمت عملی اور دوراندیشی   وجاہت اور وسعت فکر سےبھٹکل کا نظام بھٹکل کے ماحول کو کوبغیر اختلافات کے پاک کر کےایک بہترین  ماحول دیا  ، نوجوانوں میں دینی حمیت   اور صحیح فکرہ دیا اور جامعات الصالحات کے ذریعہ مستورات کی ایسی ٹیم تیارکی  جو آج بھٹکل میں دینی خدمات انجام دے رہیں ، اور یہی ان کا سب سے بڑا قوم پر احسان ہے ،  اور یہ سب  مشفق و محسن حضرت مولانا عبد الحمید ندوی    ملپا صاحب کی فکروں اور دارالعلوم ندوہ العلما میں علما کی صحبت میں رہنے کا اثرہے

مولانا نے ان کےاوصاف حمیدہ پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ  مولانا خوددار اور غیرت مند تھے اور اتنے بڑے عہدہ کے باوجود سادہ ذندگی گزارتے ،  منکرات کے تعلق سے انتہائی حساس تھے مولانا منکرات کے تعلق سے انتہائی حساس تھے ، جو بات غلط ہوتی اس پر بلا جھجھک روک ٹوک کرتے اوراتنے بڑے عہدہ پر رہتے ہوئے بھی اصول و ضوابط کے پابند تھے اورمولانا نے کبھی اپنے عہدہ کابے جا استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ، مولانا نے کئی ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ باتیں کہنا آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا  اتنا ہی مشکل ہے ، مولانا نے مزید کہا کہ مولانا مرحوم کو مسلک کی باریکیوں پر گہری نظر تھی ، فقہ شافعی  پر پوری قوت کے ساتھ عمل کرنے والے تھے ،  اپنے مسلک پر جم کر کے باریکیوں کا خیال رکھتے ہوئے اسی اعتبار سے کام کرنا  یہ بڑی جرات کی بات ہے

 نائب قاضی مولانا عبد الرب خطیبی ندوی  نےفرمایا کہ اللہ نے  مولانا کو فراست ،علم وعمل تفقہ  اور زہد کے ایسے اوصاف دئے تھے کہ جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے ، بے باک اور غریبوں کا خاص خیال کرنے والے تھے ،مولانا کو علوم دینیہ میں مہارت کے ساتھ علوم فکیات اور علم ہیئات پر ایسی مہارت تھی کہ اس فن کے بڑے بڑے ماہر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے  ، مولانا کے ایک خاص وصف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کی تربیت کا ان میں بڑا ملکہ تھا مولانا کی تدریسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک طالب علم پر مولانا کی خاص توجہ رہتی تھی ، اور اس طرح پڑھاتے کہ چیزیں سالوں سال تک مستحضر رہتی  ، مولانا نے ان کے اخلاق حمیدہ کو اپنانے اور اس کو اپنی ذندگی میں اتارنے کی  کی نصیحت کی

 اس موقع پر امام و خطیب مولانا عبدالعلیم ندوی نے  ایک واقعہ کی روشنی میں مولانا  کی ذندگی کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ،انہوں نے کہا کہ اسکول کے دور میں قاضی صاحب  کا شمار انتہائی ذہین اور ممتاز ترین طلبا میں تھا   ، اور مولانا کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے پورے شہر کے ذمہ داروں کی نگاہیں ان پر تھیں کہ  وہ مستقبل کے ایک بڑے ڈاکٹر بنیں گے لیکن اسی دوران  جامعہ اسلامیہ کا آغاز ہوا  ، جامعہ کے بانی مولانا محی الدین منیری رحمۃ اللہ نے نوجوانوں  کو دینی تعلیم کے حاصل کرنے پر ابھارا ،تو اسی کا اثر ہوا کہ مولانا نے دینی تعلیم اور دین کی خدمت کے لئے خود کو وقف کر نے کا ارادہ کیا  لیکن  حالات ایسے ہو گئے  کہ  ۱۵ سالہ نوجوان اور اس کے عزائم ایک طرف تو دوسری طرف پورا شہر کھڑاہوگیا  ،ایسے وقت میں بھی  ہمت اور بلند حوصلہ کے ساتھ  مولانا نے دینی  تعلیم حاصل کر دین کی خدمات کا فیصلہ کیا اور آخر تک  اس پر قائم رہے،مولانا نے  کہا کہ دنیوی اعتبار سے کسمپرسی کی حالت میں ذندگی گزارنے کے باوجود دینی اعتبار سے جو انہوں نے کام کیا، ان کی خدمت کا اثر ہے  کہ اللہ نے انہیں منتخب کیااور زمانہ نے دیکھا کہ ان کے ذریعہ سے جو نسل پروان چڑھی ان کے ہاتھ میں آج پورے شہر کی قیادت ہے ، ، اور آج جویہاں کے  علما میں خود دراری اور جرات ہے یہ سب مولانااور ان کےساتھیوں  کی قربانی کی دین ہے

آخیر میں مولانا صادق اکرمی ندوی مدظلہ کے دعائیہ کلمات کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا۔

 

Share this post

Loading...