محمد شمی نے لکھا ہے کہ اللہ نے اس کو ایک بیش قیمتی زندگی دی لیکن پولیس کی زیادتیوں کی وجہ سے وہ پھانسی لگانے پرمجبور ہے۔ شمی کےگھروالے شمی کی خود کشی کے لئے پولیس کو ذمہ دارمان رہے ہیں ۔شمی کے والد شکیل احمد بیٹے کی موت سے سکتے کے عالم میں ہیں ۔ان کےجوان بیٹے کی خود کشی نے ان کو غموں سے نڈھال کر دیا ہے ۔اب وہ صرف انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ گھر اور محلے والوں کا بھی کہنا ہے کہ ایک معمولی جھگڑے کو پولیس نے ایک بڑا معاملہ بنا دیا۔واضح رہے کہ پولیس شمی کو بار بار دھمکی دے رہی تھی ۔اسی دوران پولیس نے کئی بار سب کے سامنے شمی کے باپ کی بے عزتی بھی کی تھی ۔فی الحال پولیس شمی کی موت پرچپی سادھے ہوئے ہے۔
ہریانہ کے دیوڑو گاؤں میں مسجد وعیدگاہ کی اراضیات پر شرپسندوں کے حملے
نئی دہلی، 14اپریل(فکروخبر/ذرائع )سونی پت (ہریانہ) کے دیوڑو گاؤں میں مسجد وعیدگاہ پر شرپسندوں کے ذریعہ کی گئی کارروائی کی آل انڈیا ملی کونسل نے شدید مذمت کی ہے اور ریاستی حکومت سے مذکورہ عبادت گاہ کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ معاصر ایک روزنامہ (اردو) کی خبر کے بموجب گزشتہ 2اپریل 2016 کو سونی پت کے مقامی ایم ایل اے کویتاجین نے دیوڑوگاؤں کی ایک قدیمی مسجد کے صحن میں مسلمانوں کی اجازت کے بغیر ایک کمیونٹی سینٹر کا سنگ بنیاد رکھ دیا جس سے مسلمانوں میں شدید اضطراب وبے چینی پیدا ہوئی اور وہاں کا امن وامان متاثر ہوگیا۔ کیوں کہ شرپسندوں کی پشت پناہی آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم بالاجی سمیتی کررہی تھی۔ آل انڈیا ملی کونسل نے وہاں کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل ہریانہ شاخ سے تبادلہ خیال کیا اور وہاں پر امن وامان کو متاثر کرنے والی کوششوں سے انہیں آگاہ وہوشیار رہنے کی تلقین کی۔اسی تناظر میں آل انڈیا ملی کونسل ہریانہ کی جانب سے گزشتہ 9اپریل 2016کو ایک 7رکنی وفد قاری ذیشان قادری، صدر کونسل کی قیادت میں سونی پت کے گاؤں دیوڑو گیا جہاں پر علاقائی لوگوں سے سنجیدہ تبادلۂ خیال کیا گیا بقول اراکین وفد، تقسیم وطن کے بعد لوگ کثیر تعداد میں اس علاقے سے ہجرت کرگئے اور یہاں مہاجرین کی تعدا سے کہیں زیادہ غیر مسلم برادران وطن رہائش پذیر ہوگئے۔ نیز تقریباً 18 سالوں تک اس گاؤں کی مذکورہ مسجد پر وہ قابض ودخیل رہے اور متذکرہ مسجد ہی ان کی جائے رہائش رہی۔ لیکن جب بعض حلقہ کی جانب سے معاملہ وقف بورڈ تک پہنچا اور پھر بورڈ نے حق ملکیت کے دعویٰ میں کامیابی حاصل کی اور جب (1966میں ) سے وہ متنازعہ مسجد ’’مسجد‘‘ ڈکلیئرہوگئی۔ لیکن وقف بورڈ کی بے توجہی کی سبب قابضین نے اسے مندر تصور کرتے ہوئے 15سالوں تک اپنے قبضہ کی چیز سمجھی، پھر دفعہ 145اٹیچ ہوا اور پورے طور پر مسجد بند ہوگئی۔ تاہم علاقائی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک مصالحت ہوئی اور حسب فیصلہ مسلمانوں نے اس متنازع مسجد سے ان کا قبضہ ختم کرانے کے لیے ممکنہ تمام کوششوں اور اعانتوں کے ساتھ 1980میں ہندوؤں کے لیے ایک مندر تعمیر کرادیا۔
دوسری جانب مسجد سے ملحق وقف بورڈ کی 9قلعہ زمین ہے جس پر ابتدا سے ہی مسلمانوں کا قبضہ ہے، کورٹ نے بھی 2008میں مسلمانوں کو مسجد بنانے کی اجازت دی۔ چنانچہ از روئے فیصلہ، مسلمانان دیوڑو گاؤں جب مسجد کی مرمت کی طرف پیش قدمی کررہے تھے تو انتظامیہ نے اس پر حکم امتناعی نافذ کردیا، معاملہ علاقائی تھانے کے پاس پہنچا تو تھانے نے اپنی اتھاڑتی استعمال کرتے ہوئے علاقہ کے ہندوؤں ومسلمانوں پر مشتمل 11۔11افراد پر مشتمل کمیٹی کا قیام کردیا۔ معاملہ یہانتک پہنچا کہ جو اراضی چوپال کے سامنے ہے، سرکار سے اجازت لے کر اس پر کمیونٹی سینٹر تعمیر کیا جائے، نیز جو معاملہ کورٹ میں ہے، فیصلہ آنے تک دونوں فریقین اسی پر عمل کریں۔ مزید برآں جو اراضی عیدگاہ کی تھی مسلمانوں نے انتظامیہ سے اجازت لے کر جب عیدگاہ تعمیر کرنا شروع کیا تو پھر ایک بار تنازعہ نے نئی صورت اختیار کرلی اور وہاں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ مسلمانان موضع دیوڑو، خوف وہراس کے ماحول سے دوچار ہیں،مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ جس مسجد میں وہ نمازیں پڑھ رہے ہیں، وہاں انہیں نمازیں ادا کرنے دیا جائے اور پُرامن ماحول میں سرکار شرپسندوں کی مداخلت سے مذکورہ مسجد وعیدگاہ کو آزاد کرائے اور ان کی مذہبی جگہوں کو ہر طرح کی سازشوں سے تحفظ دلائے۔
منی پور میں ما ؤ نوازباغیوں کے حملے میں میجر سمیت متعدد فوجی جاں بحق
نئی دہلی۔14اپریلفکروخبر/ذرائع) ریاست منی پور میں ماؤنواز باغیوں کے حملے میں بھارتی فوج کا میجر سمیت متعدد فوجی جاں بحق، جبکہ فوج کی جانب سے ایک باغی کو مارنے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست منی پور کے ایک گاؤں میں بھارتی فوج نے مشترکہ آپریشن میں ماؤ نوازباغیوں کو بھاری مالی و جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ ماؤ نواز باغیوں نے گھات لگاکر حملے میں متعدد فوجی ہلاک کردیئے ہیں، تاہم فوج کی جانب سے ایک میجر کے مارے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ چند ماہ پہلے بھی اسی علاقے میں باغیوں کے حملے میں اکیس بھارتی فوج ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
نیپال: بس کھائی میں گری 24 ہلاک
کھوٹنگ ۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع )مشرقی نیپال میں کل ایک بس حادثے کے گہری کھائی میں گر جانے سے 24 لوگ ہلاک جبکہ ت30 زخمی ہو گئے۔ا?ن لائن نیپالی ریپبلک میڈیا نے نیپالی کی وزارت صحت کے حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ کہ ضلع کھوٹانگ میں ایک مسافر بس کھائی میں جاگری۔مسافر وں سے بھر ی کھٹمنڈوجانیوالی بس ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہونے کے بعد پہاڑی سڑک سے پھسل کر 150 میٹر گہری ایک کھائی میں جا گری۔ نتیجے میں 24 مسافر ہلاک اور330 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ پولس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 17 مرد اور سات خواتین ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور امدادی اداروں کے مطابق اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس بس میں کتنے مسافر سوار تھے۔ خراب سڑکوں، غیرذمہ دارانہ ڈرائیونگ اور بوسیدہ گاڑیوں کی وجہ سے نیپال میں ایسے حادثے اکثروبیشتر رونما ہوتے رہتے ہیں۔
پنامہ پیپر لیک : پنامہ کی فرم کے دفتر پر چھاپہ
نیویارک۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع )پنامہ کے اٹارنی جنرل نے کل رات موساک فونسیکا لاء فرم کے دفاتر پر چھاپہ مارا۔ یہ اطلاع مقامی حکام کے ایک بیان میں دی گئی۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے یہ چھاپہ اس بات کا پتہ لگانے کے لئے مارا گیا کہ وہاں کوئی غیر قانونی سرگرمیاں تو نہیں چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پنامہ کی اس لا ء4 فرم دستاویزات لیک ہونے سے سمندر پار کی کئی کمپنیوں کے غیر قانونی دھندے کا پردہ فاش ہوا تھا،جس سے دنیا کے کئی بڑے لیڈروں کو شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ پنامہ کی قومی پولس نے اس سے پہلے ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ وہ ان دستاویزات کی تلاش کر رہے ہیں جس سے غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے فرموں کے استعمال کا پتہ چل سکے۔ ان فرموں پر کر پشن اور دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔ پنامہ کی لا ء4 فرم کے دفتر کی عمارت کے پاس کل دوپہر بعد افسران اور پولس کی گشتی آٹوموبائل پہنچنا شروع ہو گئی۔ چھاپے اور تلاشی کی قیادت پراسیکیوٹر جیویر کاروالو نے کی۔ پولس کے چھاپے کے بعد موساک فونسیکا کے حکام نے کچھ کہنے سے انکار کیا۔ اس سے پہلے کمپنی کے بانی شراکت دار ریمن فونسیکا نے کہا تھا کہ کمپنی نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ اس نے کوئی دستاویز تباہ نہیں کیا ہے۔ پنامہ کی لا کمپنی کی دستاویزات کے لیک ہونے کے بعد دوسرے ممالک نے بھی اپنے یہاں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔
بدمعاش صراف بھائیوں سے پیسہ اور زیورات لوٹ کر فرار
اعظم گڑھ۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع) اترپردیش میں اعظم گڑھ کے دیو گاؤں علاقہ میں بدمعاش صراف بھائیوں سے لاکھوں روپے کے زیورات اور کچھ نقدی لوٹ کر فرار ہوگئے۔پولیس ذرائع نے آج یہاں بتایا ہے کہ ہنورگنج میں واقع زیورات کی دوکان بند کرنے کے بعد کل رات پنکج اور اس کا بھائی نیرج موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے۔ اونچ گاؤں کے پاس دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار بدمعاشوں نے انہیں روک لیا اور ڈرا دھمکا کر دو کلوچاندی 30 گرام سونا اور قریب 30 ہزار روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔اس ضمن میں معاملہ درج کرایا گیا ہے۔ پولیس لٹیروں کو تلاش کررہی ہے۔
ناصر عرف پپو بھائی کی موت ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی کا شرمناک نمونہ
سہارنپور۔14اپریل (فکروخبر/ذرائع)باجوریہ مارگ ضلع کا اس وقت سب سے مخصوص علاقہ بنا ہواہے یہاں سیکڑوں سینئر معالج، درجن سے زیادہ سپر اسپشل اسپتال، ضلع سرکاری اسپتال اورضلع کے نامور لوگوں بلخصوص ضلع مجسٹریٹ کی رہاش بھی اسی روڈ پر واقع ہے یہاں ہر وقت نازک حالات سے جوجھ تے ہوئے مریضوں کا آنا جانا رہتاہے اس علاقہ میں ہر وقت دوسو کاریں مع ایم بولینس کے موجود رہتی ہیں ضلع انتظامیہ اور ہمارے پولیس افسران اسی روڈ سے گزرتے رہتے ہیں تھانہ جنکپوری بھی یہاں قائم ہے مگر اس اہم باجوریہ مارگ پر عام آدمی، مریضوں اورخاص طبقہ کی حفاظت کے لئے کوئی بھی بندوبست آج تک نہی کیاجاسکا جس وجہ سے نظام ٹریفک اس روڈ پر بد سے بد تر بنا ہواہے درجنوں سپاہی اور داروغہ ہر وقت اس باجوریہ مارگ پر جمع رہتے ہیں اور ان سبھی کی موجودگی میں ہی لگاتار اس مارگ پر غیر قانونی اور ہیوی ٹریفک آزادانہ طور سے تیز رفتار کے ساتھ چلتا رہتاہے ؟آپکو یہ درد ناک خبر بتادیں کہ ضلع کے اس سب سے خاص روڈ پر کل وقت مغرب جو کچھ بھی ہوا اس واقعہ نے ضلع انتظامیہ اور سرکاری نظام کی جہاں پول کھول کر رکھ دی وہیں اس واقعہ سے ضلع بھر میں پولیس اور افسران کی لاپرواہی کاجو نمونہ سیکڑوں لوگوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا وہ ناقابل بیان ہے!
ضلع کے سب سے خاص اسی باجوریہ مارگ پر چالس سالہ آٹو ورکس انجینئر ناصر عرف پپو کی پپو آٹو ورکس کے نام سے ورکشاپ قائم ہے اس ورک شاپ پر ضلع کے تمام سرکاری افسران کی اپنی اور انکے محکموں کی تمام مہنگی کاریں وغیرہ عرصہ سے یہیں ٹھیک ہوتی آرہی ہیں اطلاع کے مطابق کل دیر شام کیوقت ناصر عرف پپو بھائی اپنی ورکشاپ پر بیٹھے تھے کہ تبھی اس روڈ پر غیر قانونی طور سے چلنے والے ایک بڑے ٹرالے نے اپنا بیلنس کھوتے ہوئے اس راستہ پر چلنے والے چھہ سے زیادہ لوگوں کو کچلتے ہوئے پپو بھائی کی ورکشاپ میں زبردست جھپٹ لگادی موقع پر ہی پپو بھائی اورایک دیگر بوڑے شخص کی بری طرح سے کچل جانے کے نتیجہ میں دردناک اور افسوسناک موت واقع ہوگئی پپو بھائی بڑے مخلص اور معیاری مزاج کے مالک تھے دردناک واقعہ کی خبر سن تے ہی سماجوادی پارٹی کے سینئر قائدین، بھارتیہ جنتا پارٹی ایم پی راگھو لکھن پال شرما، بسپا کے ممبر اسمبلی رویندر مولہو، ممبر اسمبلی سنجے گرگ، سابق وزیر سرفراز خان، اسلم خان، محمد اقبال، محمودبھائی،شازان مسعود، شایان مسعود ، سید امام بخاری کے داماد ممبر اسمبلی عمر علی خان، بھا ئی عمران مسعود نوازش خان اور بہت سے سیکڑوں معزز لوگ موقع پر جمع ہوگئے مگر پپو بھائی تو ٹرالے سے کچل کر اسی وقت دم توڑ چکے تھے جائے حادثہ پر موجود بہوجن سماج پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی با اثر لیڈران نے پپو بھائی کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ کے لئے ضلع انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار بتاتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کیاکہ ضلع میں قانون کی کوئی حیثیت ہی نہی بچی ہے یہاں ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک بناہے ہیوی ٹریفک رشوت خوری کے نتیجہ میں ہر روز لوگوں کو کچل رہاہے اس ضلع میں بے ترتیب ٹریفک نے آج تک چھہ ماہ کے درمیان سیکڑوں گھروں کو ماتم کدوں میں بدل دیاہے مگراس نظام کے خلاف کوئی بہتر پلاننگ ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران کے پاس نہی ہے اسی لئے پپو بھائی کے ساتھ ٹرالے اور ٹرالے کے ڈرائیور نے جو جبر کیاہے وہ ہر آدمی کے ساتھ اس علاقہ میں سالہا سال سے اسی طرح ہوتا آیاہے مگر پپو بھائی کی ددرناک موت نے ضلع پولیس کو لاکھوں لوگوں کے سامنے شرم سار کر کے رکھہ دیاہے عام چرچہ ہے کہ سرکار کے نمائندوں ، انتظامیہ اور پولیس کے لئے انسان کی جان کی قیمت رشوت کے پیسہ سے بہت کم ہے؟
۔سفید اور لال راشن کارڈ بنوانے میں بد عنوانی کاانوکھا کھیل۔
مفلس اور پچھڑا طبقہ سستے راشن اور سستے علاج کی خاطر تڑپنے پر مجبور؟
سہارنپور۔14اپریل (فکروخبر/ذرائع) کمشنر کوئی بھی رہے کلکٹر کچھ بھی چاہے مگر ہوگاوہی کہ جو دفتر کا اسٹاف چاہیگا آج یہ چلن عام ہے اگر یقین نہی تو سہارنپور کمشنری کے صرف ایک درجن محکموں کی گزشتہ چار سالوں کی کارکردگی کی منصفانہ جانچ کرالو تو آپ سبھی کے سامنے سرکاری مشینری کی حقیقت اجاگر ہوجائیگی؟ راشن کارڈ بنوانے کے معاملہ کو لے کر اب اس سرکار میں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ سفید اورلال راشن کارڈ بنانے کے معاملوں میں بھی زبردست دھاندلی پونے لگی ہے آپ تعجب کریں گے کہ آجکل لال اور سفید راشن کارڈ ان لوگوں کے بنائے گئے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس اپنے عمدہ مکانات ہیں اور جنکی معقول آمدنی بھی ہے وجہ یہ ہے کہ ان صاحب حیثت افراد کے پاس افسران اور ملازمین کو دینے کے لئے رشوت کی موٹی رقم ہے جبکہ مفلس افراد کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے دستیاب رہتی ہے !اندنوں غریب اور مستحق عوام آج بھی سفید اور لال راشن کارڈ کے لئے ترستا ہوا در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے سفید راشن کارڈ کے لئے سیاسی نمائندے اور سرکاری ملازمین ملی بھگت کرکے ۳۵۰۰روپے سے لیکر پانچ ہزار کی اہم رقم کے عوض کسی کو بھی سفید راشن کارڈ بنواکردینے کی ہمت رکھتے ہیں افسران بھی انہیں کی لسٹ پر اپنی تصدیق کرکے راشن کارڈ بنوا دیتے ہیں کہ جنکا پیسہ اسٹاف کو مل جاتاہے جبکہ مستحقین ۳۵۰۰روپے کی رشوت ادا نہ کر پانے کی صورت میں پیلے راشن کارڈ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ضلع کے سیکڑوں راشن ڈپو ہولڈر بلیک کے ذریعہ اناج ، چینی ، چاول اور مٹی کا تیل بیچ بیچ کر کروڑ پتی بن چکے ہیں محکمہ سپلائی کے افسران ہر ماہ سرکار کی جانب سے ملنے والی تنخوائیں اپنے اپنے بنک کھاتوں میں جمع کراتے آ رہے ہیں اور ان کے گھر و باہر کے تمام ما ہانہ خرچ ڈپو کے ذریعہ کالا بازاری کرکے ہونے والی آمدنی سے پورے ہو رہے ہیں !ہر ڈپو ہولڈر محکمہ کے افسران کو اور علاقائی سیاست دانو کو دس ہزار روپے ماہانہ خرچ کرکے اپنے کالے کاروبار کو آزادانہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہے راشن تیرہ سو افراد کا اور تقسیم ہوتاہے صرف آٹھ سو افراد کو باقی کا راشن ہضم جہاں چاہو شکایت کرلویہ ہے سپلائی افسران کو ملنے والی رشوت کا چمتکار اس رشوت کے کالے دور میں اب آپ خد نتیجہ نکالیں کہ آزادی کے۶۸ سال بعد بھی ہر ایک سیاسی پارٹی کی سرکار میں یہی کارکردگی عام ہے ۶۸ سالوں کی آزاد ی کے بعد بھی ملک کا غریب اور لاچار عوام بھوک سے مرنے سے بچنے کی خاطر اس مہنگائی کے دور میں بازاری ریٹ پر ضروری اشیاء خریدنے پر مجبورہے جبکہ صاحب حیثیت لوگ سرکاری راشن کی دکانوں سے ملنے والی ضروری اشیاء سستے دام پر با آسانی حاصل کرکے مزے اُڑا رہے ہیں اور سفید کارڈ سے ہائر سینٹروں پر کم خرچ پر بہتر علاج بھی کرارہے ہیں اسکے برعکس مفلس لوگ بغیر دوائی کھائے دم توڑ رہے ہیں ! لاکھ شکایتوں کے با وجود ضلع انتظامیہ ڈپو ہولڈرس کے خلاف آج تک کسی بھی طرح کی سخت کاروائی کر پانے میں ناکام ہیں اپنے آپ کو صاف ستھرا کہنے والے سیاست داہ اور افسران اس بدعنوانی میں برابر کے شریک ہیں عوام کے مفاد میں کسی بھی طرح کی سوچ ان کے پاس نہیں ہیں یا یوں سمجھئے کہ ان لوگوں کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے اور یہ لوگ اپنے ہی ملک کے مظلوم عوام کا خون چوسنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک راشن ڈپو ہولڈر کے پاس ۱۵۰۰ سے لیکر۳۰۰۰ تک آنلائن راشن کارڈ بنے ہوئے ہیں پھر بھی یہ مافیاء ۴۰ فیصد افراد کا راشن ہر ماہ ہضم کرکے بازار میں بلیک سے بیچتے آ رہے ہیں ہمارے حکام ان تمام بد عنوانیوں سے با خبر ہیں! سینئر افسران سبھی کچھ جانتے اور دیکھتے ہیں مگر اس کے با وجود بھی خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں ان افسران کو یہ بھی معلوم ہے کہ عام آدمی راشن کارڈ بنوانے کے لئے تنگ اور پریشان ہے مگر اس کے باوجود بھی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سیاسی ایوانوں کے سبھی ذمہ دار لوگ ان شرمناک حالات میں خاموش تماشائی بنے ہیں اور غریبوں کو پیٹ بھر کھانے سے تڑپتا ہوا اپنی بے شرم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں صوبائی سرکار نے وجود میں آنے سے۵۰ماہ قبل عوامی فلاح کے اور بہبودگی کے جو دعوے کئے تھے وہ صرف چا رہی سالہ دور اقتدار ہی میں کافور ہو گئے آج عام آدمی بالخصوص اقلیتی ، پسماندہ، دلت اور پچھڑا طبقہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے تڑپنے اور خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہے ؟
بچی کا قتل۔ لاش پارک سے برآمد
مین پوری۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع) اترپردیش میں مین پوری کے کشنی علاقہ میں ایک 5 سالہ بچی کو دھار دار ہتھیار سے قتل کردیا گیا اس کی لاش ایک با غ سے برآمد ہوئی ہے۔پولیس ذرائع نے آج یہاں بتایا ہے کہ نپور پور میں رہنے والے رام ویر باتھم کی 5 سال کی لڑکی کریتی کل کھیت میں گئی تھی مگر گھر نہیں لوٹی۔ گھر والوں کے تلاش کرنے پر اس کی لاش گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک باغ میں پڑی ملی۔ اسے کسی دھار دار ہتھیار سے قتل کیا گیا تھا۔قتل کا سبب معلوم نہیں ہوسکا ہے پولیس چھان بین کررہی ہے۔
ہندوستان کرپال کا جسد خاکی واپس چاہتا ہے
نئی دہلی۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع )امور خارجہ کہ وزارت نے آج اسلام آباد میں قائم مقام ہائی کمشنر سے کہا ہے کہ لاہور جیل میں مرنے والے ہندوستانی شہری کا جسد خاکی جلد از جلد ملک واپس لانے کے لئے پاکستانی دفتر خارجہ میں اعلی سطح کے افسر سے بات کریں۔50 سالہ کرپال سنگھ کی پر اسرار حالات میں لاہور کی جیل میں موت ہوگئی ہے۔ جہاں وہ 20 سال سے قید تھا۔کرپال 1992 میں واگہ باڈر پار کرکے پاکستان میں داخل ہوگیا تھا جہاں اسے گرفتار کرلیا گیا تھا اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس میں اسے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ امور خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے یہاں بتایا ہے کہ اسلام آباد میں قائم مقام ہائی کمشنر قیدی کی موت کے سبب اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ وغیرہ کے بارے میں اطلاعات حاصل کریں گے۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کرپال سنگھ پیر کی صبح کوٹ لکھپت جیل کی اپنی کوٹھری میں مردہ پایا گیا تھا۔ اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے لاہور کے جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔قبل ازیں 2013 میں موت کی سزا پائے ہوئے سرب جیت سنگھ کو کوٹ لکھپت جیل میں ساتھی قیدیوں نے حملہ کرکے مارڈالا تھا۔
کئی بڑی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے بس زراسی احتیاط سے
نئی دہلی۔14اپریل(فکروخبر/ذرائع ) اگر آپ اپنے بچوں کو سنگین بیماریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں ہاتھ دھونے کی شروع سے عادت ڈالئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ محض ہاتھ صاف رکھ کر بڑے اور بچے سنگین قسم کے انفکشن سے خود کو بچا سکتے ہیں۔فرید آباد کے ایشین اسپتال کے ڈاکٹر انشومن چارلہ نے کہا ''ہاتھ گندے رہنے سے نہ صرف بچوں بلکہ ہر عمر کے آدمی کو انفکشن لگتا ہے لیکن اگر ہاتھ دھونے کی عادت ڈال لی جائے تو یہ بیماریوں کو پھیلنے سے روکنے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا۔بچوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کھانا کھانے سے پہلے بیت الخلا سے آنے کے بعد ، جانوروں کو چھونے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ علاوہ ازیں نو زائیدہ بچے کو ہاتھ لگانے سے پہلے بھی ہاتھ صاف ہونا ضروری ہیں۔بیماری میں یہ احتیاط اور بھی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے کیونکہ بیماری پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔
ماہر ین کا کہنا ہے کہ بچوں کو آس پاس سے ماحول سے جراثیم لگنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ انہیں ہم جراثیم سے آزاد کسی جگہ بند کرکے تو نہیں رکھ سکتے۔ بچہ مٹی اور دھول میں کھیلتے ہیں۔ دوسرے بچوں سے چیزوں کا لین دین کرتے ہیں جو شاید اتنے صاف ستھرے نہ ہوں۔ وہ بہت سی ایسی اشیا کو چھوتے ہیں جو گندی ہوتی ہیں جیسے کہ دروازوں کے ہینڈل ، فٹبال ، سیڑھیوں کی ریلنگ وغیرہ۔چونکہ ہر قسم کی جرائم اور بیکٹریا ہر طرف پھیلے ہوتے ہیں اس لئے انفکشن سے بچنے کا بہترین اور آسان طریقہ ہے کہ والدین اور ٹیچر بچوں کی ذاتی صاف ستھرائی کا خیال رکھیں اور ان کے ہاتھ دھلواتے رہیں۔اگر روزانہ نہانے اور بار بار ہاتھ دھونے کی شروع سے عادت ڈالی جائے تو وہ زندگی بھر کام آتی ہے اور صحت اچھی رہتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق صابن سے ہاتھ دھونا خصوصاً ٹائلٹ سے آنے کے بعد ہاتھ دھونے سے الٹی دست جیسی بیماریوں کو 40 فی صد تک کم کیا جاسکتا ہے اور سانس کی بیماریوں کو 30 فی صد تک گھٹایا جاسکتا ہے۔یہاں تک کہ اگر ڈیلوری سے قبل کارکن ہاتھ دھوئیں تو بچوں کی اموات 19 فی صد کم ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی پایا گیا ہے کہ اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو گود میں لینے سے قبل ہاتھ دھولیں تو ان کی اموات 4 فی صد کم ہوجاتی ہیں۔ہاتھ گندے رکھنے۔ جدید زندگی کے ماحولیاتی خطرے جراثیم کے طاقتور بننے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے کئی اسباب سے قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔اس میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ لوگ پچھلے زمانہ میں صفائی ستھرائی کے جو طریقے اپناتے تھے وہ روایتی طریقہ آج کے ماحول میں نہیں چلیں گے کیونکہ آلودگی بہت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے لئے بار بار ہاتھ دھونا اور جراثیم کش صابن سے نہانا ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر چارلہ نے کہا ''بیماریوں کو روکنے سے ان سے مقابلے کے لئے پہلا قدم صفائی ستھرائی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی صفائی کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ا س میں جراثیم کش صابن سے نہانا اور ہاتھ دھونا شامل ہے۔علاوہ ازیں بچوں کو متوازن اور تغذیہ سے بھر پور غذا دینی بھی ضروری ہے تاکہ ان کی قوت مدافعت بہتر بنے اور مضبوط ہوں۔''ایسی دنیا میں جہاں آلودگی ہم سب کو حد سے زیادہ متاثر کررہی ہے ہوا پانی سب گندہ ہورہا ہے اور نئی نئی بیماریاں سامنے آرہی ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی صحت کا بے حد خیال رکھیں اور احتیاط برتیں۔
Share this post
