پنچایت انتخابات : عوام اور عوامی نمائندے

تحریر وتجزیہ: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

ریاست کرناٹک میں دو مرحلوں میں انجام پانے والے انتخابات کے نتائج آج منظر عام پر آئے۔ بعض امیدواروں کی امیدیں برآئیں تو بعض کے چہروں پر افسردگی چھاگئی۔ عوام میں بھی تین طرح کے لوگ تھے۔ اپنے پسندیدہ امیدوار کی جیت پر بعضوں نے خوشیاں منائیں اور بعضوں کی حالت دیکھ کر ہی محسوس ہوا کہ ان کے امیدوار کو انتخابات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن عوام میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نتائج سے اوپر اٹھ کر علاقہ کی ترقیوں کا خواب دیکھ رہا ہے اور جب ان کے خوابوں کی تعبیر ملنے لگے تو انہیں دلی سکون حاصل ہوگا کہ واقعی اس کی حق رائے دیہی کام آرہی ہے۔ 

عوام کی کیا ہے ذمہ داری؟
ہر علاقہ کے اپنے اپنے مسائل ہیں اور ہر ایک مسائل حل کرانا چاہتا ہے۔ کہیں سڑکیں خستہ حالی کی شکایت کررہی ہیں تو کہیں کچرہ نکاسی سب سے اہم مسئلہ ہے، کہیں پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے تو کہیں کوئی اور، غرض مسائل کبھی ختم ہونے والے نہیں ہے۔ عوام یہی چاہتی ہے کہ ان کے مسائل فوری طور پر حل ہوجائیں اور علاقہ والوں کو لگے کہ انتخابات کے بعد علاقہ میں ہر لحاظ سے ترقی ہورہی ہے۔ پنچایت ممبران کی بھی یہی کوششیں رہنی چاہیے کہ اس کے علاقہ کے عوام کو درپیش مسائل حل ہوں لیکن عوام کو بعض مسائل میں صبر سے بھی کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عوام کا ایک طبقہ بڑا جذباتی ہے۔ اس کا چھوٹا سا بھی مسئلہ حل نہ ہوں تو وہ آسمان سر پر اٹھالیتا ہے اس کو اس مسئلہ کی نزاکت کا کوئی علم نہیں رہتا اور نہ قانون کی کوئی جانکاری ہوتی ہے۔ اس کی منھ سے بے اختیار نکلتا ہے کہ ہم نے ووٹ دے کر امیدوار کو جتایا لیکن ہمارا مسئلہ حل ہی نہیں ہورہا ہے۔  
یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ منتخب ممبران علاقہ کی ترقی کے لئے چنے گئے ہیں نہ کہ ہماری ذاتی کام کے لیے وہ عوام کے خدمتگار ہوتے ہیں، کسی کے نوکر نہیں۔ ہاں یہ بات اہم ہے کہ حکومتی پیمانے کے ہمارے کام نہ ہورہے ہوں تو ان سے شکایت کی جائے۔ اگر قانون کی جانکاری نہ ہو تو ان سے مشورہ کیا جائے، مسئلہ حل نہ ہورہا ہے کہ ان سے مداخلت کے لیے زور لگائیں لیکن یہ سوچ کسی بھی طرح درست نہیں ہوسکتی ہے کہ گھر بیٹھے بیٹھے وہ ہمارا کام کریں گے، اجتماعی مسائل میں عوام کو چاہیے کہ پنچایت کے ممبران کا ساتھ دیں، اگر کسی سیاسی لیڈران سے گفتگو کی ضرورت کے وقت اسے عوام کا تعاون درکار ہو تو اسے تعاون فراہم کرایا جائے۔ غرض مسائل حل ہونے میں ہماری جتنی دلچسپی ہوگی اتنے ہی مسائل ہمارے حل ہوں گے۔ 

پنچایت ممبران کی ذمہ داریاں؟ 
علاقہ کی عوام کی جہاں اپنے مسائل کو لے کر ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہیں منتخب ممبران کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔  نمائندوں کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور عوام نے ہمیں علاقہ کی ترقی کے لیے چنا ہے۔ ان کے سامنے بہت سے آپشن ہوتے ہیں، وہ کسی کو بھی اپنے اپنے علاقہ کی نمائندگی کے لیے انتخاب کرسکتے تھے لیکن ان کا نظرِ انتخاب آپ پر پڑا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی نظر میں عوامی مسائل حل کرنے میں موزوں شخص ہیں۔ لہذا ہمیشہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کو لے کر سنجیدہ رہیں۔ مسائل حل کرانے میں خود کو دوسرے علاقوں کے ممبران سے ممتاز رکھیں، علاقہ کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ غریبوں اور ناداروں کے ہمدرد بنیں، ان کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں اور یاد رکھیں کہ انہی کے دعاؤں میں آپ کا مستقبل پنہاں ہے، عوامی خدمت کے لیے جب آپ نے خود کو پیش کیا ہے تو آپ کی دوہری ذمہ داری ہے۔  عوام کو اکثر یہ شکایات رہتی ہے کہ اسکیموں کے بارے میں نمائندے آگاہ نہیں کرتے۔ بعض اسکیمیں شروع ہوکر ختم ہوجاتی ہیں لیکن عوام کو اس کی خبر تک نہیں رہتی، پنچایت میں جس طرح کی بھی اسکیم شروع ہوجائے عوامی نمائندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان سے آگاہ کرتے رہیں۔ غرض آپ کا کام عوام کی خدمت ہونا چاہیے اور بے لوث خدمت پر جو اجر ملنے والا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اللہ کے نبیﷺ نے اسے بہترین انسان قرار دیا ہے جو لوگوں کو نفع پہنچانے والا ہے۔ (الترغیب والترہیب: 2623)

Share this post

Loading...