صرف ان بچوں کے کان اور پاؤں ہی بکریوں کی طرح ہیں ۔یہ خبر فورا آگ کی طرح پورے علاقہ میں پھیل گئی ۔اس کی اطلاع مویشیوں کی ڈاکٹروں اور سرکاری حکام کو دی گئی ۔خبر کے پھیلتے ہی اطراف و اکناف کے مواضعات کے لوگ بکری کے اس نایاب بچے کو دیکھنے کیلئے جمع ہوگئے‘لیکن خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ ان بچوں کی موت ہوگئی ہے ۔ڈاکٹر اب بھی اس عجیب بچے کی پیدائش سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں لگے ہیں ۔ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ کسی مورثی عوارض(Genetic Disorders)کی شکایت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس خرابی کی شکایت میں بچے کے جسم میں ضرورت سے زیادہ سیال بھرجاتے ہیں ۔ان بچوں کے جسم کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میں میسور میں ان کے جسم کی نمائش بھی لگائی جائے گی۔***
شاہین ادارہ جات کی جانب سے تعلیمی بیداری کاروان کے تحت 100لیکچرس کا سلسلہ شروع کیا گیا
بیدر۔23؍ڈسمبر۔(فکروخبر/محمدامین نواز بیدر )۔شاہین ادارہ جات بیدر اپنے سلورجوبلی سال کے موقع پر مختلف تعلیمی اداروں کے تعاون واشتراک سے ’’تعلیمی بیداری کارواں ‘‘ کے ضمن میں جملہ 100لیکچرس کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔ جو کرناٹک ، آندھراپردیش، تلنگانہ اور مہاراشٹر کے مختلف تعلیمی اداروں میں اولیائے طلباء اور طلباء وطالبات کے سامنے دئے جارہے ہیں تاکہ صحیح بیداری سے استعفادہ کیاجاسکے۔ اس حوالے سے ماہرتعلیم جناب مبارک کاپڑی ممبئی شاہین ادارہ جات بید رکے زیراہتمام حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں 27اور 28ڈسمبر ہفتہ اور اتوار کو پانچ مختلف پروگراموں سے خطاب کریں گے۔ 27ڈسمبر بروزہفتہ 2:30بجے دوپہر یم پی گارڈن ، مہدی پٹنم چوراہا، حیدرآباد اور 8بجے شب الخیرکامپلکس ، بڑا بازا ر ، گولکنڈہ میں دو پروگرام ہوں گے جس میں پیس ٹی وی کے ممتاز مقرر جناب مبارک کاپڑی (ممبئی) بتائیں گے کہ مسلم معاشرے میں تعلیمی ماحول کس طرح پیداکیاجاسکتاہے ؟ بچے کی تعلیم وتربیت میں والدین کارول کیا ہوتاہے؟ طلباء کو پڑھائی کس طرح کرنی چاہیے۔ ذہنی یکسوئی کیسے اختیار کی جاسکتی ہے ؟کند ذہن طلباء کیسے تیز ذہن بن سکتے ہیں ؟ زندگی کی کامیاب منصوبہ بندی کیسے ہو، دہم اور بارہویں کے بعدکے تمام کورسیس اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیسے کی جائے وغیر ہ وغیرہ نکات پر پرمغز معلومات بہم پہنچائیں گے۔ دوسرے دن 28ڈسمبر بروزاتوار مبارک کاپڑی صاحب 10:30بجے معراج گارڈن ،چندرائن گٹہ ، 2بجے دوپہر ثناگارڈن، چارمینار (برائے اساتذہ کرام) اور 8بجے شب ثناء گارڈن روبروسردار محل ، بلدیہ آفس ، چارمینارپر اپنے تین پروگرام پیش کریں گے۔ 29ڈسمبر بروزپیر 10بجے دن ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی ، ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کی زیرسرپرستی ایک عظیم الشان جلسہء عام بعنوان ’’دینی وعصری تعلیم کاامتزاج ۔ وقت کی ضرورت‘‘ثناگارڈن ، روبروسردار محل ، بلدیہ آفس ، چارمینار۔حیدرآباد منعقد ہوگا۔ جس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے علاوہ مولانا قطب الدین چشتی ، مولانا رحیم الدین انصاری ، مولانا احمد محی الدین ، مولانا شفیع الدین مدنی ، اور مولانا حافظ محمدخواجہ نذیرالدین صاحبان کی مذکورہ موضوع پر پر مغز تقاریر ہوں گی۔ مدارس اور اسکولوں کے ذمہ داران ، اور سرپرست حفاظ کرام سے شرکت کی گذارش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ عصری تعلیم سے نابلد 12تا15سال کے ملک بھر کے حفاظ کیلئے اعلیٰ عصری تعلیم کا موقع فراہم کیاگیا ہے جس کے تعلق سے ترتیب دیا گیا پروگرام ’’حفظ القرآن پلس‘‘ کی تفصیلات اس جلسۂ عام میں پیش کی جائیں گی ۔اس پروگرام کے نتیجہ میں آج عصری تعلیم سے نابلد حفاظ میڈیکل اور انجینئرنگ میں اپنی عصری تعلیم کے حصول میں کامیابی سے لگے ہوئے ہیں ۔ مزید تفصیلات کے لئے 9341111560پر رابطہ کیاجاسکتاہے۔ ***
بیدر میں اُردو کی ترقی وترویج سے متعلق تیسری نشست کا انعقاد
مُختلف شرکائے پروگرام نے خطاب کیا
بیدر۔23؍ڈسمبر۔(فکروخبر/محمدامین نواز بیدر )۔ ایک سروے بتاتاہے کہ 2050ء تک تمام دنیا پر ہندی اور اردوکاغلبہ ہوگا۔ اگر ہم اردو کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کی طرف جاناچاہیں گے تو کیاایسا ممکن ہوگاکہ تمام دنیا پر اردو غالب آئے ؟میں اس بات کو صاف کرنا چاہوں گاکہ انگریزی بولنے سے بولنے والے کا اسٹیاٹس بڑھے گا ۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ چین میں 99%لو گ چینی زبان بولتے ہیں ، وہ انگریزی جانتے ہیں لیکن اس کو پسند نہیں کرتے۔ چینی زبان بولنے والوں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی اشیاء آج دنیاکی 65%آبادی کے تمام گھروں میں موجودہیں ، ان ظروف پر چینی زبان بھی لکھی جاتی ہے چاہے وہ زبان کسی کوپڑھنے آئے یانہ آئے ؟کیرلہ میں صدفیصد خواندگی انگریزی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اپنی مادری زبان ملو کی وجہ سے ہے ۔ کیرلہ کے افراد بھی دنیا کے ہرقطعہ میں پائے جاتے ہیں ۔ جبکہ اردو زبان گذشتہ کئی سال سے دنیا کی تیسری اور چوتھی بولنے اور سمجھنے والی زبانوں میں شامل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرفنونِ لطیفہ جناب محمدیوسف خان سابق سابق ایچ اوڈی ڈپارٹمنٹ آف لنگویجس آچاریہ بنگلور بی اسکول (بنگلور)نے کیا ۔ وہ ایم آرپلازا ، تعلیم صدیق شاہ بیدر میں اُردو کی ترقی وترویج سے متعلق ہونے والی تیسری نشست سے خصوصی خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے زوردیاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اردو کا استعمال کریں ۔ اردواخبارات کو گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ گھروں میں خواتین کے رسائل پہنچیں تو اس کی بدولت اُردو کی ترویج میں خواتین کاحصہ لینا آسان ہوگا۔ جناب سخاوت علی نظامی نے اپنے مضمون’’اردو۔ کسمپرسی۔ تدارک‘‘ میں مشورہ دیاکہ فکروعمل کے بنیادی تقاضوں سے محبان اردو ہم آہنگ ہونے کی سعی فرمائیں ۔ دماغوں پر پڑے غفلت کے پردوں کو ہٹانا ایک مثبت عمل ہے۔ اردوداں طبقہ اور اُردو اساتذہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اُردو کو اس کاجائز مقام دلائیں ۔ اردو کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا فہم وفراست سے باہرلگ رہاہے ۔ اس لئے بھی آج اردو کی ترقی کے لئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ احتیا ط اور دانشمندی سے قدم اٹھانالازمی ہے۔ آ ہ وزاری کے بجائے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں اور اپنی محوِ خواب صلاحیتوں کو بیدارکریں ۔ جناب محمد امیرالدین امیرؔ نے ’’اُردو زبان بے حدضروری ہے‘‘ کے عنوان سے اپنامختصر مضمون پیش کیااور بتایاکہ بچوں کواردو دوست ماحول دیاجائے تو وہ اُردو زبان میں دلچسپی لیں گے۔ درس دینے کیلئے معلم محنت کریں ، بچوں کو نئی نئی کہانیاں سننے کاموقع فراہم کیاجائے ۔سال میں ایک دفعہ اردو سے متعلق متاثرکن پروگرام پیش کیا جائے ۔ نشست میں شرکاء کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیاگیاتھا۔ اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے جناب عبدالمبین سکریڑی مولانا ابوالکلام آزاد یووک سنگھ نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے والدین اُردو کے بجائے انگریزی میڈیم سے تعلیم دینے کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ ہمارے آباواجداد نہایت ہی فصیح اردو جانتے تھے ۔ یہاں تک کہ بیدر کے برہمن آج بھی اُردو پڑھتے ہیں ۔ جناب ابراھیم قادری عرف خاورقادری کاکہناتھاکہ والدین کو اردو اسکولوں میں تعلیم دلانے راضی کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ باکردار اساتذہ اور ایک مثالی ماحول اردو اسکولوں میں پیداکیاجائے۔ اور جن اساتذہ کو مضمون پڑھانا نہیں آتاانھیں مقام پر ہی معطل کیاجائے۔محمدیوسف رحیم بیدری نے اظہارخیال کرتے ہوئے نشست کی سمت کویاددلایااور کہاکہ منفی سوچ یاردعمل کے جذبات سے بہتر ہے کہ مثبت سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ دی جائے۔ورنہ ہر شخص قصوروار نظر آئے گا۔ ابتداء ہی میں ہم نے طے کردیاہے کہ اردو کی ترقی سے متعلق تجاویز ومشورے دیں تو بہتربات ہوگی ۔ محمدامیرالدین امیرؔ نے کہاکہ اُردواسکولوں میں بھلے جس قسم کی خرافات ہورہی ہوں اس کو ہٹانے کی ذمہ داری بھی سرپرست حضرات اور اہلیان محلہ کی ہے۔محمدایوب علی ماسٹرنیڈس کی اپیل تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں تعلیم دلائیں تب ہی اردو کی ترقی ممکن ہے۔ کچھ ایسی ہی بات محمدعمران خان اور دیگر نے کہی۔ جناب محمدقیوم نے چند غیر مسلم بھائیوں کی مثال پیش کی کہ ان غیرمسلم بھائیوں نے ایک موقع پر بتایاکہ انسان میں ادب اُردو پڑھنے سے آتاہے۔ اس زبان نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔ مذکورہ افراد کے علاوہ محمدا ظہراحمدخان ، عبدالکلیم مدرس، شیخ ارشاد، محمدفیروزوغیرہ نے نشست میں شرکت کی۔محمدیوسف رحیم بیدری نے نظامت کافریضہ انجام دیا ۔جناب عرفان پٹھان جوائنٹ کنوینر (اڈھاک) نے اظہارتشکرکیا۔
بیدر کے وارڈ نمبر 5میں ہیلتھ کارڈ بنانے کے مرکز کا قیام
بیدر۔23؍ڈسمبر۔( فکروخبر/محمدامین نواز بیدر )۔مرکزی وزارتِ محنت کی جانب سے شہر بیدر کے بلدی وارڈ نمبر5میں رکن بلدیہ بیدرجناب عبدالرحمن ساقی کی نمائندگی پر وارڈ نمبر5میں بی پی ایل راشن کارڈ اور انتو دیاراشن کارڈ ہولڈرس کیلئے راشٹریہ ہیلتھ بیمہ یوجنا کے تحت شہر کے برہمن واڑی اسکول میں مرکز قائم کیا گیا ہے ۔اس ضمن رکن بلدیہ جناب عبدالرحمن ساقی کے ہمراہ ان کے رفقاء و کارکنان ڈاکٹر نوید قریشی‘ شاہ اسدقادری ‘اسلم ریحان ‘ ایم اے اکبر‘سریش مڈ پتی‘ ڈاکٹر عثمان‘ محمد فہیم ‘محمد کلیم‘ قاضی سید اویس الدین ‘محمد یوسف سیٹھ‘ وسیم علوی ‘عبدالکریم ‘جمیل ‘شعیب اور مزمل نے راست طورپر بی پی ایل اور انتو دیا راشن کارڈ گیرندوں کے مکانوں کو جاکر اس سلسلہ میں معلومات فراہم کرتے ہوئے عوام کو مرکزی حکومت کی اس اسکیم سے مستفید ہونے کیلئے درخواست کرتے دیکھے گئے ۔اس موقع پر مذکورہ اسکیم سے متعلق بتایا کہ بی پی ایل اور انتو دیا راشن کارڈ گیرندوں کو ہیلتھ کارڈکی اسکیم مرکزی حکومت کی وزارتِ محنت کی جانب فراہم کی جارہی ہے ۔وارڈ نمبر5 میں موجود تمام بی پی ایل اور انتو دیا راشن کارڈ گیرندوں کو چاہئے کہ فوری طوری پر مرکزی حکومت کی اس ہیلتھ اسکیم کے تحت بننے والے ہیلتھ کارڈ کے حصول کیلئے وارڈنمبر5 میں واقعبرہمن واڑی اسکول بیدر میں قائم کردہ مرکزپر25؍ڈسمبر تک کیمپ صبح10بجے تا5بجے رہے گا ۔سینکڑوں مستحقین نے مذکورہ کارڈ کے حصول کیلئے رجوع ہورہے ہیں۔جناب عبدالرحمن ساقی رکن بلدیہ وارڈ نمبر5نے اس موقع پر محکمہ محنت کے ذمہ داران اور ان کا تعاون کرنے والے ان کے رفقاء اور کارکنان سے اِظہارِ تشکر کیا اور کہا کہ وارڈ کے مذکورہ بالا تمام راشن کارڈ ہولڈرس کو اس کا مکمل فائدہ ہو ‘ فی راشن کارڈ 5افراد کو سالانہ30ہزار روپیے کا علاج کیا جاتا ہے ۔اور اس پر عمل آوری یکم جنوری2015سے ہوگی۔
Share this post
