انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا یہ احتجاج کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہم صرف اپنے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی اس واقعہ میں ملوث ہیں ان کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے۔ بدقسمتی سے ضلع انچارج وزیر نے مسلمانوں سے اس معاملہ کے تعلق سے کچھ پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا جس سے شبہ ہے کہ چند کانگریسی بھی اس میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس صدر بی ٹی پردیپ نے ٹیپو سلطانؒ کی یومِ پیدائش کی تقریب میں حصہ نہیں لیا ، ایم ایل سی وینا اچائیا بھی اس موقع پر حاضر نہیں تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیتوں کے تعلق سے ان کے دل صاف نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہم کئی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ، کانگریس پارٹی میں موجود مودیوں کی وجہ سے ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں ، اگر کانگریس ہمارے درد کو نہیں سمجھتی ہے تو ہمارا ووٹ ہمارے پاس ہی رہنے دے۔ انہوں نے اس موقع پر یونیفارم سیول کوڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو بھی شریعت میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ موقعہ کی مناسبت سے دیگر کئی اداروں کے ذمہ داروں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں کے لیے یہاں کوئی تحفظ نہیں مل رہا ہے۔واقعہ کے کئی دنوں بعد بھی ملزمین کی گرفتاری نہ ہونے کی وجہ سے کئی سارے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک جلوس کی شکل میں جاکر یادداشت بھی پیش کی۔ اس دوران ضلع کانگریس مزدور یونٹ کے صدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ پولیس اس معاملہ میں ملوث افراد کو حراست میں لینے میں ابھی تک ناکام ہے جنہوں نے امن وامان میں خلل ڈالا ، گرام پنچایت ممبر کے پی دنیش نے شرپسندوں کی جانب سے لگائے گئے پوسٹر کے خلاف معاملہ درج کرایا جس کو شرپسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کانگریس پارٹی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے پولیس کی جانب سے اس معاملہ پر سختی سے نہ نمٹنے اور ملزمین کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر شدید احتجاج کرنے کی بھی دھمکی ی۔ اس موقع پر مڈی کیری مزدو یونٹ کے صدر عبدالرزاق ، کشل نگر یوتھ کانگریس کے صدر چندن وغیرہ موجود تھے۔
سرکاری پرائمری اسکول میں دو مہینے سے کوئی ٹیچر نہیں
اڈپی 04؍ دسمبر 2016(فکروخبرنیوز) سومیشور تعلقہ کے اماسا بیلو نامی علاقہ میں واقع جی ایل پی ایس پرائمری اسکول میں پچھلے دو ماہ سے کوئی استاد نہیں ہے۔ اس طرح کی شکایت میڈیا نمائندوں کوموصول ہوئی ہے، جس سے عوام پریشان ہیں، بتایاجارہاہے کہ مذکورہ اسکول میں کل 29طلباء ہیں جو روزانہ اسکول آتے ہیں ، معمول کے مطابق دعا بھی ہوتی ہے اورپورا نظام اسکول کے نظام کے مطابق چلتا ہے لیکن یہاں آنے والے طلباء کا مقصد حل نہیں ہورہا ہے۔ اپنے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈرہے یہ طلباء اب کسی استاد کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن دو ماہ گذرنے کے بعدبھی درجات استاد سے خالی ہیں۔ پانچویں جماعت کی طالب اکشتا کا کہنا ہے کہ وہ پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت کے طلباء کوروزانہ کچھ نہ کچھ سکھاتی ہیں۔ اس سے پہلے یہاں موجود ٹیچر دو ماہ قبل اپنے آبائی گاؤں میسور میں منتقل ہوگئی۔ اس علاقہ میں تقریباً 150خاندان موجود ہیں اور صرف ایک ہی اسکول موجود ہے لیکن اس کی حالت ابھی بہت خراب ہے۔ بی ای او کنداپور سیتارا شیٹی نے اس معاملہ چھائی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ نلی کلی پروگرام کے تحت ہم ٹیچروں کو ترقی دے رہے ہیں۔ اس اسکول میں مقرر کیے گئے ٹیچروں کا تعلق دوسرے علاقوں سے ہوتا ہے جب وہ یہاں سے دوسری جگہ منتقلی کا کوئی موقع پاتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے منتقل ہوجاتے ہیں۔ ہم کسی کو صرف ایک یا دو ماہ کے لیے روک سکتے ہیں اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں مقامی افراد میں سے ایسے شخص کی تلاش میں جو ان بچوں کو تعلیم دلاسکیں۔اس نے مزید کہا کہ ہم اسکول میں تعلیم حاصل کیے ہوئے طلباء کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ یہاں طلباء کے لیے تعلیمی انتظامات کرنے میں ہمارا تعاون کریں۔
Share this post
