ملک میں خواتین پر دن بدن بڑھتے مظالم

انھوں نے کہا کہ جرم اور خواتین پر ہورہے مظالم کے معاملات کو جلد حل کرنے اور ملزمان کو سزا دلوانے کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ خواتین ججوں اور وکالت کرنے کیلئے مقرر کرنا ہوگا ۔پولیس محکمہ میں بھی زیادہ تعداد میں خواتین ملازمین کا تقرر کیا جانا چاہئے ۔ مسٹر ہنس راج بھردواج نے کہا کہ ریاست میں ایماندار پولیس آفیسرس کوکچھ کر کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے ‘ایسے حکام کا ایسی جگہوں پر تبادلہ کیا جارہا ہے جہاں انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کے کافی موقع نہیں ہوتے ۔انھو ں نے کہا کہ ملک میں خواتین کو برابر درجہ اور احترام کی ضرورت ہے ۔ حکومت ایسے پروگراموں کو نافذ کرے جن سے خواتین کو Independent بنانے اور بے خوف ہوکر کام کرنے کا موقع ملے ۔اس موقع پر قومی خواتین کمیشن کی سربراہ شوبھا اوجھا نے کہا ہے کہ عصمت دری جیسے وحشیانہ جرائم کی سماعت کے تحت اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔انھوں نے اس قانون میں تبدیلی کی پُزور وکالت کی ۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال دہلی میں ہوئی گینگ ریپ کا واقعہ اور اس سال ممبئی کی ایک مل میں ہوا حادثہ ‘ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پیش آئے سب سے زیادہ پریشان کرنے والے حادثوں میں شمار ہوگئے ہیں ۔ایسے میں مجرموں کو ان کے ظلم کو دیکھتے ہوئے ہی سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے ۔اس بات پر غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مجرم بالغ ہے یا نابالغ انھوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں نو عمروں کے ملوث ہونے میں اضافہ کی وجہ سے نو عمر افراد سے متعلق قانون پر ایک بار پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔کمیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ سماجی تبدیلی صرف اسی وقت صرف خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر روک لگا سکتے ہیں ‘جب عدلیہ ‘پولیس اور قانون ساز سخت سزا یقینی ہو‘اس کے علاوہ مردو کی ذہنیت میں تبدیلی بھی سماج کے تبدیلی کی سمت کو طئے کرے گا ۔شوبھا اوجھا نے کہا کہ ’’یہ بہت بد قسمتی کی بات ہے کہ تین سال کی عمر سے لے کر 80سال کی عمر کے خواتین کے خلاف جرائم میں اِضافہ ہورہا ہے ‘‘ساتھ ہی یہ بات کافی بد قسمتی کی ہے کہ عصمت دری جیسے زیادہ تر مقدمات کو خاندان کی طرف سے ہی دبایا جاتا ہے ۔اگر ایسے معاملہ سامنے آتے بھی ہیں تو ماں۔ باپ کو لگتا ہے کہ ان کی بیٹی کی زندگی برباد ہوجائے گی۔ ا س موقع پر وزیر داخلہ کے جارج نے کہا کہ حکومت خواتین کے تحفظ کیلئے مصروفِ عمل ہے ۔ جرم اور خواتین پر ہونے والے مظالم کے معاملات میں گرفتار ملزمان کو سزا دلانے کیلئے10نئے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کی جائیں گی ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹچلیا‘کنڑاور ا ثقافت وزیر اوماشری ‘ڈی جے لال رُکما پچاؤ وغیرہ موجود تھے ۔

کرناٹک اُردو اکاڈیمی کو فعال بنانے کیلئے بجٹ میں اِضافہ کا مطالبہ 
اکاڈیمی کے چیرمن و اراکین کی فوری نامزدگی کے مطالبہ کیلئے یادداشت 

بیدر۔14؍ڈسمبر۔(فکروخبرنیوز)بیدر کی مُختلف ادبی و لسانی تنظیموں اور انجمنوں کے ذمہ داران جن میں جناب محمد امیرالدین امیر ؔ صدر یارانِ ادب بیدر ‘محمد یوسف رحیم بیدری صدر ادارہ ء ادبِ اسلامی بیدر‘نثاراحمد کلیم صدرانجمن ترقی اردو ہندبیدر‘سید لطیف خلش صدر نوائے احباب بیدر‘ محترمہ رُخسانہ نازنین سکریٹری بزمِ غزالاں بیدر‘محمد اکرام الدین ساحل صدر بزمِ تیور بیدر ‘محمد اسدالدین مینجنگ ٹرسٹی علیم الدین فاؤنڈیشن بیدر‘محمد شجاع الدین صدر آل انڈیا اردو منچ بیدر‘محمد مبشر سندھے یوتھ ونگ JIHبیدر اورمحمد اظہر خان صدر نوجوانان گولہ خانہ بیدرنے بیدر کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پی سی جعفر سے ملاقات لرتے ہوئے ان کی توسط سے ایک یادداشت ریاستی وزیر اعلی کوبضمن کرناٹک اُردو اکاڈیمی کو فعال بنانے کیلئے بجٹ میں اِضافہ اور اکاڈیمی کے چیرمن و اراکین کی فوری نامزدگی کے مطالبہ کے بشمول 14مطالبات پر مبنی ایک یادداشت پیش کی گئی ۔یادداشت میں اس طرح مطالبات پیش کئے گئے ہیں کہ چیرمین اور اراکین کی نامزدگی فوری طورپر عمل میں لائی جائے تاکہ ریاست کا اردو ادب ترقی کی راہوں پرگامزن ہوسکے۔اکاڈیمی کوگذشتہ کئی سال سے جمہوری طرز پر کام کرنے کاموقع نہیں دیاجارہاہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اکاڈیمی کو جمہوری طرز پر کام کرنے دیاجائے‘ اکیڈمی کی خودمختاری کو بحال کرنے ضرورت ہے‘اکیڈمی کی تشکیل میں نئے خدمت گاروں کوموقع دیاجائے۔گذشتہکاڈیمی کے کسی بھی رکن کو نئی تشکیل میں شامل نہ کیاجائے اس لئے کہ قدیم افراد کے کام کا ریکارڈ درست نہیں ہے‘ کرناٹک اردواکاڈیمی کے سالانہ بجٹ کیلئے 2کروڑ کی رقم مختص کی جائے‘ ریاست کے قلمکاروں کو کئی سال سے ایوارڈ سے محروم رکھاگیا ہے اور بزرگ فنکاروں کو طبی مراعات بھی حاصل نہیں ہیں ، اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ خواتین قلمکاروں کی کتابوں کی اشاعت کو اولیت دی جائے۔ریاست کے تمام اضلاع میں اکاڈیمی کی شاخیں قائم کی جائیں اور ضلعی کنوینر بھی نامزد ہوں ‘مستحق شعراء ، ادبا، ناقدین ودیگر کو لازمی وظائف دئے جائیں ‘اکاڈیمی کے ترجمان سہ ماہی ’’اذکار‘‘ ، ماہنامہ ’’ادیب‘‘ وغیرہ میں لکھنے والے قلمکاروں کوان کی تخلیقا ت کا معقول معاوضہ دیاجائے۔اس لئے کہ دیگر ااکاڈیمیوں کے ترجمان معاوضہ دیا کرتے ہیں اکاڈیمی کے اراکین کو گزیٹیڈ افسران کو ملنے والا ٹی اے ، ڈی اے دیا جائے‘اکاڈیمی کی جانب سے دئیے گئے مختلف پروجیکٹ پر کام کرنے والے فنکاروں کے معقول معاوضہ کا بندوبست ہو‘ کتابوں کی اشاعت کامعیار موجودہ عہد کے اشاعتی معیار کے مطابق ہو۔ ناقص کاغذ اور ناقص بائنڈنگ کے بجائے کتابوں کی اشاعت میں معیاری کاغذ اور بائنڈنگ کا خیال رکھاجائے اوراردو ذریعہ تعلیم کے فروغ پر توجہ دی جائے۔ آخر میں یادداشت میں وزیر اعلی کرناٹک سے گزارش کی گئی ہے کہ مذورہ بالا تمام مطالبات پر ہمدردانہ غورفرماتے ہوئے ان کی یکسوئی فرمائیں گے۔مذکورہ بالا یادداشت کی نقولات بیدر ضلع انچارج منسٹر اوماشری ‘سیکریٹری اقلیتی طبقات حکومت کرناٹک ‘مسٹر این دھرم سنگھ رکن پارلیمنٹ بیدر ‘قاضی ارشد علی صدر بیدر ضلع کانگریس کمیٹی کو بھی دی گئیں ہیں ۔

نریندر مودی اس ماہ کے آخر میں ریاست کے 7مقامات کا دورہ کریں گے

بنگلور ۔14دسمبر(فکروخبرنیوز)پارلیمنٹ کے انتخابات کے پیشِ نظر گجرات کے وزیر اعلی اور بی جے پی کے وزیر اعظم کے اُمیدوار نریندر مودی اس ماہ کے آخر میں ریاست کے 7مقامات کا دورہ کریں گے ۔حال ہی میں چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد جس طرح سے کانگریس حاشیہ پر چلی گئی ہے‘ ا س کے پیشِ نظر کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی (آئی) KPCCI کو پرانی غلطیوں کو بہتر بنانے اور انھیں دہرانے کیلئے ضروری کوشش شروع کرنی پڑی ہے لیکن سدارامیا کو ان نتائج کی خاص فکر نہیں ہے ۔ مسٹر سدارامیا نے بتایا ہے کہ ریاست کے لوگ یہاں اقتدارمیں رہتے ہوئے بی جے پی کی بد عنوانیوں اور رشوت خوری کو نہیں بھول پائے ۔بی جے پی حکومت کا عالم یہ رہا تھا کہ جہاں ایک سابق وزیر اعلی کو ریاست کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار جیل جانا پڑا ‘وہیں کئی سابق وزراء اور رکن اسمبلی آج بھی جیلوں میں بند ہیں ‘مسٹر سدارامیا نے بی جے پی کے دورِ اقتدار کے دوران غیر قانونی طورپر اراضی کے معاملات کے علاوہ دیگر کئی بد عنوانیوں میں ملوث بی جے پی قائدین اپنا چہرہ عوام کے سامنے کھلے طور پر دکھائے ہیں ۔اور غیر قانونی معاملہ میں جس طرح کی بد عنوانی سامنے آئی ہے اس سے ریاست کے خزانہ کو بھاری نقصان پہنچا ۔اب گجرات کے وزیر اعلی ریاست کے سابق بی جے پی وزراء کو کیسے بچائیں گے ؟ریاست کی عوام کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل کس پارٹی کو کس نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے اور وہ اس کے مطابق ہی ووٹ دیں گے ۔ریاست میں کانگریس کو مودی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 

Share this post

Loading...