مولانا محمد الیاس صاحب ندوی کے حافظِ قرآن بننے پر تہنیتی اجلاس کاانعقاد

مصروف اوقات میں سے  تھوڑا وقت بھی حفظِ قرآن کے لیے فارغ کیا جائے تو جلد اس نعمتِ عظمیٰ سے مالا مال ہوسکتے ہیں : مقررین کا اظہارِ خیال

بھٹکل 29/ جنوری 2021(فکروخبر نیوز) شہر کے مشہور عالمِ دین او رکئی اداروں کے ذمہ دار اور سرپرست مولانا محمد الیاس صاحب ندوی کے حافظِ قرآن بننے پر ان کے اعزاز میں جمعیت مسجد طوبیٰ آزاد نگر اور آزاد نگر فرینڈس اسوسی ایشن کی جانب سے تہنیتی اجلاس کا انعقاد مسجد طوبیٰ میں بروز منگل بعد عشاء منعقد کیا گیا جس میں سبھوں نے مولانا کے حافظِ قرآن بننے پر اپنی بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور انہیں مبارکباد پیش کی۔ 
اس موقع پر جمعیت مسجد طوبیٰ او رانفا کی جانب سے مولانا کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا جس کو حاضرین کے سامنے مولانا عبداللہ دامداابو ندوی نے پڑھ کر سنایا اور ان کی جانب سے ہدیہ بھی پیش کیا گیا۔ 
مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے اپنے جذبات او راحساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایمان اور حضور ﷺ کی امت میں پیدا ہونے کی نعمت کے بعد اگر کوئی بڑی نعمت ہوسکتی ہے وہ حفظِ قرآن کریم کی دولت ہے۔ اگر زندگی بھر اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو بھی اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا نے اپنے ایک خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ اور ندوہ سے فراغت کے بعد میں ایک خواب وقفہ وقفہ سے دیکھا جس کی تفصیلات یہ ہے کہ میرا متحان باقی ہے اور میں ڈر کے باوجود اس کی تیاری نہیں کررہا ہوں۔ ایک امتحان ہوگیا تو کچھ پریشانی کم ہوگئی اور مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میرا امتحان حفظِ قرآن کا باقی تھا اور میں اس کی تیاری نہیں کررہا تھا۔ مولانا نے جمعیت الحفاظ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے حافظِ قرآن بننے میں اس کا بڑا رول رہا ہے۔ جب جب بھی کوئی پروگرام ہوتا تو مجھ سے صرف باہر ے مشورہ لیتے تھے لیکن جلسہ میں کسی طرح کا کوئی کام کرنے نہیں دیتے تھے۔ اسی کے ایک پروگرام میں مولانا نعمت اللہ صاحب ندوی نے بھری محفل میں کہہ دیا کہ مولانا الیاس کو بھی حافظِ قرآن بننا ہے۔ اسی طرح جب مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کے قاضی مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی کے حفظِ قرآن بننے کے بعد میرے اندر بھی داعیہ پیدا ہوا، ان سب کا کچھ میرے دل پر اس طرح اثر ہوا کہ میں نے ٹھان لیا کہ مجھے بھی حافظِ قرآن بننا ہے۔ مولانا نے خود کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کے ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میرے متعلق جہاں بہت سے غلط فہمیاں ہیں ان میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ میں مصروف ترین انسان ہوں لیکن یہ بات رکھنی چاہیے کہ کوئی مصروفیت نہیں ہے۔ جب میں نے حفظِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے اوقات میں سے کتنا وقت ضائع کررہاہوں۔ مولانا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے حفظِ قرآن بننے کے دوران عا  لمیت اور فضیلت کے طلباء کی فکر شروع کردی اور مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ دوسروں کے فائدہ کے لیے میرا نقصان ہورہا ہے لیکن یاد رکھیں جو دوسروں کے نفع کے لیے کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ مزید نوازاتے ہیں جس کا میں نے خود مشاہدہ کیا۔ اس سے پہلے جتنے صفحات مجھے یاد ہوتے تھے اس سے زیادہ صفحات مجھے یاد ہونے لگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بھی اس بات کا ارادہ کرلیں کہ جو وقت آپ کے پاس زائد ہے اس میں سے تھوڑا سا وقت بھی فارغ کرلیں تو آپ بھی حفاظ کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مولانا نے اس موقع پر اپنے والدین، اپنے مربی اور محسن مولانا عبدالباری صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب عبدالحمید صاحب اور جناب دامودی سعید صاحب، ان میں سے ایک اللہ کو پیارے ہوگئے  اور ایک بقید حیات ہیں۔ اگر دامودی سعید صاحب حیات ہوتے تو اس پر اپنی بڑی خوشی کااظہار کرتے۔ 
مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد ندوی نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں اور آج ان میں سے ایک پہیہ اس طور پر ممتاز ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حفاظ کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔ مولانا اپنے خیالات کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکے اور نمدیدہ ہوکر مولانا الیاس صاحب کو اپنی طرف سے، جامعہ، ابناء جامعہ اور پورے شہر کی طرف سے مبارکبادی پیش کرتے ہوئے خود کو اس نعمت سے اب تک محروم رہنے پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور سبھوں سے خصوصی دعاؤں کی گذارش کی۔ 
قاضی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی نے کہا کہ آج سے تقریباً ایک سال قبل خلیفہ جامع مسجد میں میرے حافظِ قرآن بننے پر تہنیتی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں سب سے زیادہ خوشی کا اظہار شاید مولانا الیاس صاحب نے کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک سال کی مدت میں انہیں بھی اس توفیق سے نوازا۔ مولانا نے قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو صرف ناظرہ پڑھنا آتا ہے تو آپ ایک آیت، ایک رکوع یاد کرنا شروع کردیجئے، ان شاء اللہ آپ بھی حفاظ کی فہرست میں جلد شامل ہوجائیں گے۔ 
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا عبدالرشید صاحب راجستھانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ انسان کو دعائیں مانگتی رہنی چاہیے، جس سے وہ اپنے اپنے بڑے بڑے مسائل حل کرسکتا ہے اور یہی چیز میں نے مولانا الیاس صاحب میں دیکھی۔ 

امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبدالعلیم صاحب ندوی نے کہا کہ مولانا محمد الیاس صاحب ندوی معمولات کے بہت پابند ہیں اور مولانا جب کسی کام کا کرنے کا ارادہ کرلیں تو اس کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں اور حفظِ قرآن کے لیے یہ دونوں باتیں بہت ضروری ہیں۔ 
مولانا انصار صاحب ندوی مدنی نے جہاں قرآن مجید سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی نصیحت کی تو وہیں مولانا نعمت اللہ صاحب نے ہر اپنے بچہ کو حافظِ قرآن بنانے کی دعوت دی اور کہا کہ اب تک میں مولانا الیاس صاحب سے حافظِ قرآن بننے کے لیے کہتا آرہا ہوں اب مولانا مقبول صاحب اور مولانا انصار صاحب سے اسی طرح کہتا رہوں گا۔ 
ان کے علاوہ مولانا عبدالعظیم صاحب قاضیا ندوی، مولانا فاروق صاحب ندوی اور ناظمِ جامعہ ماسٹر شفیع صاحب نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مولانا الیاس صاحب کو خصوصی مبارکباد پیش کی۔ 

Share this post

Loading...