بھٹکل 21؍ مارچ 2022(فکروخبرنیوز) جس زمانہ میں آپ ہیں اپنے دعوتی اسلوب کو اسی زمانے کے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے اورایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے علمی اور دعوتی خدمات انجام دینی چاہیے۔ ان باتوں کا اظہار مشہور عالم دین اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مولانا ڈاکٹر اکرم ندوی نے کیا۔ موصوف مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل میں بعد عصر علماء اور عمائدین سے خطاب کررہے تھے۔ مولانا نے قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں دعوت کے مخلتف اسلوب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلاف اور مشہور ائمہ کے واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کا دعوتی اسلوب بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہر زمانے میں تقریباً ہر ایک نے اپنے زمانہ کا نبض پکڑنے کی کوشش کی اور جس انداز سے جہاں کام ہونا چاہیے تھا اسی طرز پر کام کیا۔ مولانا نے موجودہ دور میں اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے سوالات کا جوابات اسی انداز میں دینے کو موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں ماخذ قرآنِ مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس میں کسی بھی صورت میں تبدیلی ممکن نہیں لیکن زمانے کو جوابات انہی دو چیزوں میں غوروتدبر کے ساتھ جدید سے جدید اسلوب میں دینے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں علوم میں پختگی کی ضرورت ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں حالات کو سمجھنے اور قبل از وقت اس کی تیاری کی طرف بھی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم زمانہ کے حالات کو نہیں سمجتھے ہماری دعوت مؤثر نہیں ہوسکتی بلکہ ہمیں زمانے کے آگے بارے میں سوچنا ہے۔ مستقبل کا پورا دعوتی لائحہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ اسی لیے مدارس میں بھی وقت اور حالات کے مطابق تعلیم ہونی چاہیے۔ ہمارے یہاں کا المیہ یہ ہے کہ مدارس میوزیم کے مانند ہوگئے ہیں ، جس طرح میوزیم میں چیزیں رکھی جاتی ہیں اور اس میں کسی بھی طرح کا رد وبدل ممکن نہیں ، اسی طرح ہمارے مدارس میں بھی انہی اسلوب میں تعلیم ہوتی ہے جو قدیم طرزکا ہے۔ وقت اور حالات کو کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح زمانہ کو ان مدارس سے افراد ملنے چاہیے وہ نہیں مل پارہے ہیں۔ اس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید طرز پر ان کی تربیت نہیں ہے ۔ ان میں زمانے کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ ساری صلاحیتوں کو ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا بلکہ جس میدان میں جو کام کررہا ہے اس کی ہمت افزائی ہونی چاہیے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہیے۔
بھٹکل کا بخاریٰ سے تقابل کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں جس وقت علم کے میدان میں بخاریٰ کا چرچا تھا اس کی سب اہم وجہ یہ تھی کہ مختلف ممالک کے تجارتی قافلے وہیں آکر ملتے تھے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ مختلف تہذیبوں سے واقفیت کے ساتھ ساتھ مختلف طرزِ تعلیم سے واقفیت رکھتے تھے۔ ہوسکتا ہے بھٹکل کے لوگ ساحل پر آباد ہونے کی وجہ سے تجارتی قافلے یہاں بھی اترتے ہوں اوران سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہو۔ دوسری بات مولانا نے یہ فرمائی کہ تاجر حضرات ہمیشہ اس بات کی کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اپنا مال بیچناہے اور اس کے لیے وہ مختلف طریقے ڈھونڈتا ہے بالکل اسی طرز پر بھٹکل میں قائم مختلف سرگرمیاں جدید اسلوب کے تحت ہیں بلکہ مولانا نے یہاں تک کہا کہ اس کو مختلف علاقوں میں عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس انداز پہ یہاں دعوتی کام ہورہا ہے وہ قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے۔
مولانا نے خطاب کے آخر میں اپنے عالی سند کی اجازت بھی مرحمت فرمائی اور بتایا کہ ان کے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان صرف چودہ واسطے ہیں ، مختلف عالی سند کو مولانا نے پڑھا بھی اور مختلف محدثین کے حالات پر مختصراً روشنی ڈالی۔
مولانا کے خطاب سے قبل بانی وجنرل سکریٹری مولانا محمد الیاس ندوی نے مولانا کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کا تعلق ہمارے اس شہر سے پرانا ہے۔ مولانا کا یہ سفر پہلا ہے لیکن اس کے باوجود مولانا یہاں کے لوگوں اور سرگرمیوں سے پہلے سے واقف ہیں۔ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبدالصمد قاضی ندوی کے ساتھیوں میں ہیں۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ذہین تھے ۔ ندوہ میں استاد کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات دی ۔ اس دوران جب دعوتی کاموں کے لیے انگلینڈ بھیجنے کی بات آئی تو حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا نظرِ انتخاب مولانا پر گئی اور انہوں نے وہاں پہنچ کر جس انداز سے اپنی دعوتی ذمہ داریاں انجام دیں وہ ظاہر ہے۔ مولانا کی امیدوں پر یہ کھرے اترے۔ مولانا الیاس ندوی نے بتایا کہ علمِ دین کی نشرواشاعت میں خواتین کا بھی اہم حصہ ہے جس طرح عام طور پر ذہن نہیں جاتا ہے لیکن مولانا ڈاکٹر اکرم ندوی نے صرف محدثات پر کام کرتے ہوئے 47 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہے جس کا چرچہ ہر طرف ہے۔ واضح رہے کہ اس نشست کا آغاز مولوی ابوالحسن ایس ایم کی تلاوت سے ہوا اور مولانا الیاس صاحب کے شکریہ پر یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔
Share this post
