انسان کو جب ایسا جواب ملے جس کی وہ اُمید نہ کرتا ہوتواس کو حیرانی کے ساتھ ساتھ اس طرح کے رد عمل پر تشویش بھی ہوتی ہے ، مگر میں ٹہرا قلم کی نوک سے ہر احساس کی شکایت کرنے والا...یکلخت ذہن میں کئی سوال نمودار ہوئے اور ایک ایک کرکے قلم کے کئی دنوں کی تشنگی کا ساماں فراہم کرنے لگے۔
ہم میں سے کون شخص ہوگا جو اس بات سے ناواقف ہوکہ گذشتہ دو ہفتوں سے حادثاتی اور فطری طور پرکئی زندگیاں موت کی آغوش میں سسکتی بلکتی اپنی منزل کو پہنچ گئی۔خبر پہنچانے والے پہنچاتے رہے ، احساس کرنے والے احساس بھی کرتے رہے، اور ان اموات پر اپنا تبصرہ بھی زوروں پر رہا ،مگر ہاں...!... مجھے میرے دوست کا جواب چونکا گیا۔ اس کا جواب بیزاری کا نہیں تھا اور نہ ہی یکلخت لاپرواہی کا۔ دراصل دبے الفاظوں میں وہ بار بار پیش آنے والے حادثوں سے نوجوانوں کی غفلت پر احتجاج کررہا تھا۔
زندگی کی قیمت کیا ہے یہ ہمیں اسلام نے بتادیا ہے مگر ضرورت ہے تو جہ کی.. غور سے سننے اور سمجھنے کی،بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے اسلام نے سکھایا کہ دعا پڑھ لیا کریں کیوں کہ خبیث جنات نقصان پہنچاسکتے ہیں، گھر سے نکلنے سے پہلے دعا پڑھ لیا کریں کیوں کہ راہ گذرتے کوئی بھی آفت سوار ہوسکتی ہے۔ سفر کرنے سے پہلے دعا پڑھ لیا کریں تاکہ حادثے سے محفوظ رہ سکیں، اور کیا بھلا ہمیں ابھی تک لا تلقو بأیدیکم الیٰ التھلکہ ‘‘ کی تفسیر سمجھ میں نہ آئی..ا س کا تعلق صرف خودکشی کرلینے ، زہر کھانے ، یا پھر دھیرے دھیرے صحت کو کھوکھلا کرنے والی مہلک غذاسے ہی نہیں بلکہ ہر اُس عمل میں ہمیں احتیاط برتنی ہوگی جہاں جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ شہرو مضافات میں پیش آرہے سڑک حادثوں کے ذمہ دار صرف بائیک یا کار سوار ہی نہیں بلکہ سرپرستان بھی اس کے ذمہ دار ہیں کہ بچوں کے مطالبہ کو بلا سوچے سمجھے پورا کردیتے ہیں ،نہ کوئی پابندی عائد ہوتی ہے نہ کوئی شرط ...
میرے دوست کے جواب نے مجھے ایک اورناحیہ سے بھی چونکا دیا تھا۔ اس کا احتجاج اپنی جگہ بجا مگر موت کی خبر پر چہرے میں جو بدلاؤ آنا چاہئے اور یکلخت زبان سے جو کلمہ نکلنا چاہئے وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ جی مجھے آپ کے اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ مومن موت کو گلے لگانے سے کتراتا نہیں مگر موت کااحساس اور اس کا احتضار بھی تو ضروری ہے ، مالکِ کائنات سے ملنے کی تمنا میں نیک اعمال کو آغوش میں لینا بھی تو ضروری ہے۔
13سالہ بچہ کس نے سوچا ہوگا کہ اچانک اپنے والدین کو داغِ مفارقت دے جائے گا؟؟ جواں سال نوجوان جو اپنے والدین سے دور ممبئی جیسے شہر میں اپنے مستقبل کے خوابوں کو سنوارنے چلا تو شام ہوتے ہوتے داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ لڑکپن سے جوانی میں جس نے ابھی ابھی قدم رکھا تھا، ایک دن پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں شرکت بھی کیا، ایسا نوجوان اچانک اس طرح موت کے لپیٹ میں آجائے گا کس نے سوچا تھا،؟ٹی ایم سی میں کلرک کے عہدے پر فائز شخص دو چھوٹی بچیوں کا باپ اپنے بچوں کو یوں یتیم چھوڑ جائے گا کس نے سوچاتھا۔ ؟؟رات گئے تلاشِ معاش کے بعد گھر لوٹ رہے نوجوان یوں اس طرح منگلور کے اسپتال میں داخل کردئے جائیں گے شایدان کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہوگا ..
ایک طرف خاموش درد کو پیتی بیویاں ہیں تو دوسری جانب اپنوں کی جدائی میں رورہے والدین ، اور بچے.... اگر والدین ، اہل و عیال، بچے و رشتہ داروں کے گالوں پر آنسوؤں کی وہ دردو غم کی لکیریں ہمارے ذہن و دما غ اور دلوں پر اثر انداز نہ ہواور ہم اپنی ہی روش پر چل پڑیں تو قصوروار کس کو گردانیں ؟؟اور بے حس کس کو کہاجائے؟؟
تیز رفتار سواری اور پھر ساتھ ہی موبائل کا جادو کس انداز میں ہمارے سر چڑھ کر بول رہا ہے اس کا اندازہ ناچیز سے زیادہ آپ کو ہوگا۔ دونوں ضروریات نوجوان نسل کے لئے سمِ قاتل ثابت ہورہے ہیں، اب تک متعدد گھروں میں صفِ ماتم بچھ چکا ہے، اس کے باوجود نوجوان طبقہ حادثوں کو دعوت دیتا چلا آرہا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کو اپنے اعصاب پر اتنا سوار نہ کرلیں کہ یہ ہمارے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جائے، کیوں کہ زندگی اتنی ارزاں بھی نہیں ہے.....موت کے آغوش میں سسکتی بلکتی زندگیوں کے وہ درد ناک مناظرابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوئی ہیں۔
Share this post
