یہ زندگی محدود ہے۔اصل زندگی تو مرنے کے بعد عطا ہوگی ، اس لئے ضروری ہے کہ دونوں چیزوں کو لے کر چلیں، دنیا بھی اور دین بھی ،یہی ہم امت مسلمہ کے اخلاق ہیں، اور دوسروں کی فکرکی جائے ،سیکھنے اور سکھانے دونوں صلاحیتیں اللہ نے عطا کی ہیں، سیکھنا اور سکھانا دونوں اچھے مقاصد سے ہو، ان باتوں کا اظہارصدر مسلم پرسنل لاء بورڈ، ناظم ندوۃ العلماء، سرپرست جامعہ اسلامیہ بھٹکل حضرت مولانا سید رابع حسنی ندویؔ دامت برکاتہم نے کیا۔ مولانا موصوف بھٹکل میں خواتین کے دینی تعلیم کے لیے مشہور و معروف ادارہ جامعۃ الصالحات کے تیسری نئی عمارت کے افتتاح کے بعد عوام سے خطاب فرمارہے تھے، مولانا نے اس موقع پر ہمدردی کی صفت کو اپنانے کی تلقین کرتے ہوئے مثالوں کے ذریعہ سے سمجھایا کہ بزگانِ دین میں یہ صفت کیسی پائی جاتی تھی، علی میاں ؒ کی تعلیم و تربیت اور ان کے اعلی و عمدہ صفات کے پیچھے ان کی والدہ محترم کی تربیت کے ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا علی میاں ؒ کو ہمیشہ دوسروں کی فکر رہا کرتی تھی، کبھی وہ اپنے لئے نہیں سوچا کرتے تھے ، اپنی فکر کی بجائے دوسروں کی فکر تھی۔ وہ ہمیشہ فکرمندر ہتے تھے کہ امت کیسے ٹھیک راہ پر چلے۔
وقت کے بڑے بڑے حکمراں اور باشاہوں کو اس کی توجہ دلاتے،۔ ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے۔ ہندوستان کے وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھا۔ اگر ہر شخص خودغرض ہوجائے تو دنیا تباہ ہوجائے گی۔ ٹرافک کے نظام کو دیکھ لیں اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو تباہی ہوگی۔ اسی طرح معاشی نظام ہے اگر اس پر کنٹرول نہ کیا جائے توقومیں تباہ ہوجائیں گی،
مولانا نے والدین کی تربیت اور تعلیم و تعلم کے ضرورت و اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوشش بچپن سے ہونی چاہئے۔ مصر کے ایک مشہور ادیب گذرے ہیں وہ دین بیزار آدمی تھے۔ ان کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر انہوں نے قرآن مجید کی تعریف میں کتاب لکھی، جب وجہ پوچھی گئی تو جواب ملا کہ جب بھی وہ ماں کی گود میں ہوتے تو تلاوت قرآن کی آواز سنا کرتے تھے ،اس کا مزہ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں، پھر قرآن کو پڑھا اور تقاضہ ہوا کہ قرآن کے بارے میں لکھوں تو پھر اس کی خوبیوں کو گنوادیا۔
بچیوں کے تعلیم کا نظام کرنا ،اخلاق ، اعلیٰ قدریں اور اعلیٰ صفات پید ا ہوں، یہ سب تعلیم اور تربیت سے ہوتی ہے ، ایسے مدارس کی ضرورت ہے جہاں بچیوں کی تربیت کی جائے، نئی نسل کے مربی مائیں ایک بہترین نسل کو سامنے لاسکیں اور تربیت کرسکیں۔اس بات کا مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ جامعۃ الصالحات سے کیسی نسل تیار ہورہی ہوگی۔
ملحوظ رہے کہ مولانا مدظلہ کے دعائیہ کلمات سے نئی عمارت کے افتتاح کے بعد مدرسہ کے وسیع ہال میں تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا اس تقریب کاآغاز مولانا نعمت اللہ کے تلاوت قرآن پاک سے ہوا، ناظم مدرسہ جامعہ الصالحات مولانا عبدالعلیم قاسمی صاحب نے تعارفی کلمات پیش کئے اور مولانا الیاس ندویؔ نے مدرسہ کی تمام تفصیلات از آغاز تا آخر سامعین کے سامنے رکھیں مولانا مدظلہ العالی کے دعائیہ کلمات پر جلسہ اپنے انجام کو پہنچا۔
![]()
![]()
![]()
Share this post
