مولانا مفتی ظہور صاحب کے سانحۂ ارتحال پر ندوۃ العلماء میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد

مولانا مرحوم عام اساتذہ کی طرح رہتے ، ان کو اپنی حیثیت نمایاں کرنے کا بالکل جذبہ نہیں تھا ۔ مولانا سے انتظامی امور میں بڑے اچھے مشورے بھی ملتے رہتے ۔مولانا نے مزید کہا کہ مولانا کا شماردار العلوم کی ممتاز شخصیتوں میں ہوتا ہے او رجب تک وہ اس ادارہ میں رہتے ان سے فائدہ پہنچتا رہا۔ مولانا مدظلہ نے اپنے خطاب میں مولانا مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی شخصیتیں حقیقت میں نمونے کی شخصیتیں ہوتی ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے حضرت مولانا مرحوم رحمۃ اللہ کے تعلق سے کہا کہ مولانا مرحوم نے ہر موڑ پر اپنے ادارے کومقدم رکھا جس سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ یہ ادارہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھا۔ مولانا نے ندوہ کے ہر شعبے میں اپنی خدمات انجام دیں اور 1952 ؁ء سے اس ادارہ سے جڑے رہے۔ علمی میدان میں خصوصاً فقہ اسلامی کے موضوع میں بڑی دسترس رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ مولانا کی تواضع کی صفت میں اپنی ایک شان رکھتے تھے۔ مہتمم صاحب نے مزید کہا کہ مولانا رحمۃ اللہ کی وفات سے ایک بہت خلا محسوس ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ جلسہ میں استاتذۂ ندوہ اور طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کی دعائیہ کلمات پر اس جلسہ کا اختتام ہوا۔ 

Share this post

Loading...