مولانا محمد الیاس صاحب جاکٹی ندوی کی اس شہرت کے پیچھے ان کی والدہ ماجدہ کی تربیت اور ان کی دعائیں شامل تھیں جن کی وجہ سے مولانا دینی اور دعوتی کاموں میں روز بروز ترقی کررہے ہیں اور نئی نسل کو فکری ارتداد سے بچانے کے لیے ہمہ وقت فکرمندنظر آرہے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ کی دینی حمیت ہی تھی جس نے مولانا موصوف کو مدرسہ میں داخلہ دلوایا اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں عا لمیت کی تکمیل کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا جہاں دو سال فضیلت کی تعلیم کی ۔مولانا فضیلت کی تعلیم کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں بحیثیت استاد مقرر ہوئے جہاں مولانا موصوف تفسیر اور ادب کے استاد ہیں۔اور اسی ادارے میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنا دعوتی سفر کا آغاز بھی کیا ۔ اپنے ساتھی علماء کے ساتھ مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی کے قیام کے بعد نئی نسل کو اسلامی نہج پر باقی رکھنے کی کوشش شروع کی۔ اس کے تحت مولانا نے اسلامیات کا نصاب ترتیب دیا جو ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیا کی کئی اسکولوں میں داخلِ نصاب ہوگئی ۔ اس کے بعد مولاناموصوف نے اسلامی نہج پر عصری تعلیم شروع کرنے کے لیے علی پبلک کے نام سے ایک اسکول کی شروعات کی جس کی اب تک چالیس سے زیادہ شاخیں ہندوستان کے کئی اہم شہروں میں قائم ہوچکی ہیں۔ اپنے اس عظیم کارنامے پر مولانا ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ جو کچھ دین کی خدمت ہورہی اس میں میرا کوئی دخل نہیں ۔ یہ کام اللہ کے فضل واحسان کی وجہ سے ہورہا ہے اور جو اس میں کوتاہی ہوئی اس کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ ان تمام دعوتی کام کے پیچھے یقیناًمولانا کی والدہ ماجدہ کی تربیت کا دخل ہوا جن کی للہیت اور دعاؤں کی وجہ سے آج مولانا دعوتی کام بڑے پیمانے پر انجام دے رہیں۔ اس عظیم شخصیت کی والدہ ماجدہ کا اللہ کے نزدیک کیا مقام ہوگا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ادارہ فکروخبر مولانا موصوف اور ان کے خاندان والوں کے غم میں برابر کا شریک ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہے کہ وہ مولانا کی والدہ ماجدہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین
Share this post
