اس آواز کو دو سیکوریٹی گارڈ نے سنا بھی تھا۔ رکشہ تیز ہونے کی وجہ سے سیکوریٹی گارڈ اس تک رسائی نہیں کرسکے البتہ لڑکی کا پرس نیچے گر جانے کی وجہ سے پرس سمیت گارڈ نے پولس کو اطلا ع کی تھی۔ رکشہ مرینا انڈور اسپورٹس کامپلکس کی جانب گیا تھا۔ اس کے بعد منی پال کا کونا کونا چھان مارنے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ طالبہ کی صحت بہتر لگ رہی ہے ۔ آئی سی یو سے اس کو جنرل وارڈ میں لایا گیا ہے ۔لڑکی نے بیان دیا ہے کہ آبروریزی کے بعد ا س کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس کے جان کی بھیگ مانگنے کی وجہ سے زندہ چھوڑ دیا گیا تھا۔
آٹھ مختلف ٹیموں کی تشکیل: ملک و بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات منی پال کے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں، اسی لئے آبروریزی کے اس معاملہ کو سلجھانے کے لیے 8ٹیموں کوتشکیل دیا گیا ہے ۔پولس افسران کو فی الحال رکشہ نمبر اور آبروریزی کی جائے واردات کا پتہ اوردیگر چیزوں تک رسائی ہوئی ہے ، پولس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس میں مقامی افراد کا ہی ہاتھ ہوسکتا ہے کہ کیوں کہ طالبہ رکشہ کا استعمال بہت ہی کم کیا کرتی تھی۔ آج وزیرِ داخلہ کے جے جارج منی پال تشریف لانے والے ہیں۔
مختلف طلباء تنظیم کے احتجاجات: واردات کی مذمت کرتے ہوئے اور ملزمین کی گرفتاری کا مطالبہ لے کر ضلع کیمپس فرنٹ آف انڈیا، ضلع اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، گرلس اسلامک آرگنائزیشن آف کرناٹکا، اُڈپی کانگریس مہلا تنظیم، سائنٹ سلی سس پی یو کالج کے تنظم کے اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے ایس پی کو میمورنڈ م پیش کیا ہے۔
ناکہ بند ی کیوں نہیں کی گئی: جرائم پیشہ افراد جب جرم کرکے فرار ہوتے ہیں تو ان کو پکڑنے کے لیے سب سے پہلے ناکہ بندی کا سہارا لے کر جگہ جگہ راستہ روک دیا جاتا ہے ، مگر یہاں واچ مین کی جانب سے پولس کو اطلاع دئے جانے کے باوجود ناکہ بندی نہیں کی گئی۔ منی پال سمیت کسی بھی علاقے میں ناکہ بندی نہیں کی گئی تھی جس پر عوام سوال اُٹھا رہے ہیں۔
سنسد نلن نے کہا یہ پولس کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے : سنسد نلن کمار کٹیل نے اس معاملہ کو پولس کی لاپرواہی پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولس نے اس معاملہ کو بھی عام جرائم کی طرح آسانی سے لیتے ہوئے کوئی قابلِ قبول اقدام نہیں کیا۔ پولس کی لاپرواہی اور ناکامی کے خلاف ضلع بی جے پی احتجاج کرے گی ، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملہ میں سیاست کو دور رکھتے ہوئے چھان بین کی جائے ۔
یونیورسٹی میں خفیہ کیمرے نہیں : منی پال یونیورسٹی کے اندرونی یا بیرونی صحن میں خفیہ کیمروں کو نصب نہیں کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے تحقیقات کے لیے کوئی ٹھوس راہ ہموار نہیں ہوئی ہے۔ اغواء کاروں کے سلسلہ میں تفصیلات اکھٹا کرنے میں پولس پوری طرح ناکام ہے۔ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی بڑی کوتاہی ہی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے حفاظتی انتظامات نہیں کئے ہیں۔
Share this post
