منگلور جیل میں کیا منصوبہ بند قتل کی سازشیں ہورہی ہیں؟؟

سوشیل میڈیا اور منگلور کے لوگل کنڑا وانگریزی اخبارات میں جیل میں پیش آئے اس قتل کی واردات کو لے کر تشویش کا اظہار کیا جارہاہے اور قیدیوں کے تحفظ کو لے کر غیر اطمنانی صاف نظر آرہی ہے ۔ جیل میں پیش آئی قتل کی واردات کے بعد ابتدائی رپورٹ جو اکثر اخبارات میں شائع ہوئی بظاہر یہی تھی اور پولس کی جانب سے بھی یہی دی گئی تھی کہ ناشتہ کے دوران دو گروپوں میں جھڑپ ہوگئی تھی جس میں میں یوسف عرف ماڈور یوسوبو جو گذشتہ چند سالوں سے جیل میں مقید تھا اور ابھی تک اس پر کسی بھی قسم کا الزام ثابت نہیں ہوا تھا اور صرف تحقیق اور ٹرائل قیدی کے طور پر جیل میں رکھا گیا تھا اس کو داؤد ابراہیم کے لئے کام کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے ، اور گنیش شیٹی جو مشہور غنڈوں کی فہرست میں ہیں یہ لوگ جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے ، مگر ابتدائی خبرکے منظر عام پر آنے کے بعد دلائل و شواہد کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے کئی طرح کے سوالات یوسف کے بھائیوں اور عوام کی جانب سے اُٹھائے جارہے ہیں ۔ اس واردات میں تقریباً بارہ افراد زخمی ہوگئے جس میں جیل سپرنڈنٹ بھی شامل ہے۔ پولیس نے واردات کے بعد ملزمین قیدیوں کو حراست میں لیا تھا۔ اس قتل کی ورادات کے منظر عام پر آنے بعد منگلور پولیس کمشنر ایس مرغان نے اخباری نمائندوں کو معلومات فراہم کراتے ہوئے کہا تھا کہ دو گروہوں کے درمیان پیش آئی جھڑپ کے سلسلہ میں اس بات کی تردید کی کہ مذکورہ جھڑپ فرقہ وارانہ مسئلہ پر نہیں ہوئی ہے۔ ایک گروہ نے مدور یوسف کا قتل کرنے کے بعد دوسرے گروہ نے گنیش شیٹی کا قتل کردیا ۔ جیل کے حدود میں تیز دھار ہتھیار کی موجودگی پر سوال کیے جانے پر انہوں نے کہا کہ ہوسکتا کہ جیل کے چہار دیواری کے باہر سے اس کو کسی نے پھینک دیا تھا۔ مگر بعد میں اس طرح جیل کے باہر سے اس طرح ہتھیارات پھینکے جانے کی بات کوکسی نے قبول نہیں کیا اور عوام کا ماننا ہے کہ اگر اس طرح ہے جیسا کہ پولس کمشنر نے بیان دیا کہ جیل کے باہر سے کسی نے پھینکا تھا تو اس سے جیل انتظامیہ اور اس کے سیکوریٹی پر سوال اُٹھتے ہیں کہ اس قدر سنجیدہ اور دنیا کے خطرناک مجرمین جہاں قید ہوں وہاں اس قسم کی لاپرواہی برتی جاسکتی ہے ، مگر اس واقعہ کے دوسرے دن ہی جیل کے اندر ہتھیار کیسے پہنچے اس کا جواب مل گیا۔ ایک تحقیقی ملزم فیضل جس کو ایک عدالت میں حاضری کے لئے پیش کیا جارہا تھا اس نے یہاں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جیل انتظامیہ اراکین کی جانب سے ہی قتل کے لئے ہتھیار فراہم کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ قیدیوں اور جیل سیکوریٹی افسران کے مابین وقتاً فوقتاً لفظی جھڑپ پیش آنے کی بات بھی اس ملزم نے میڈیا کے سامنے رکھی تھی ۔ فیضل نے یہاں بتایاکہ جس دن قتل کی واردات پیش آئی اس کے ایک دن پہلے رات گیارہ بجے چکریش نامی پولس افسر نے نیلے رنگ کے باکس میں لپٹے چاقو کو ملزم کے حوالے کیا تھا، اسی کے ساتھ اُس نے راجیندرا اور پٹنا نامی سیکوریٹی گارڈس کا نام لیا ہے ، اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ تمام تفصیلات اُس نے اے ڈی جی پی کمل پنتھ کے سامنے بھی رکھی ہے۔ ملحوظ رہے کہ اے ڈی جی پی کمل پنتھ نے ضلع قیدخانے کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگارو ں سے مکمل چھان بین کرنے اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی تھی ۔ 

ہتھیارات کہاں ہیں؟؟

قتل کی واردات میں استعمال میں لائی گئی ہتھیارات بھی ابھی تک پولس نے ضبط نہیں کیا، جس کو لے کر عوام نے سوال اُٹھائے ہیں کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی سستی برتی جارہی ہے یا پھر واردات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پولس کے بیان کے مطابق ہتھیارات کو ضبط نہیں گیا،ممکن ہے قاتلوں نے اس کو باہر پھینک دیا پھر جیل ہی ہیں چھیاپا گیا ہو، تین نومبر کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولس (لاء اینڈ آرڈر) آلوک موہن نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ قتل کی تحقیقات کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ قتل کی الزام میں پانچ ملزمین کو گرفتار کیا گیا جب کہ مزید تحقیقات ہے اگر جیل انتظامیہ کے سیکوریٹی گارڈ اس میں ملوث پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی بخشا نہیں دیا جائے گا۔ ایک سینئر پولس افسرکا صاف کہنا تھا کہ انڈر ٹرائل ملزم یوسف، عرف یوسبو کا قتل منصوبہ بند تھا۔ اس کے جسم سے چاقو کے وار کے چالیس نشانے پائے گئے ہیں، گنیش کے بارے میں کہنا تھا کہ اس کے سر اور چہرے پر چوٹیں پہنچتی تھی۔ 

25دنوں میں 7قتل اور 10اقدامِ قتل کی واردات 

یہ بات عام عوام کے لئے واقعی تشویشناک ہے گذشتہ پچیس دنوں میں 7قتل کی واردات اور 10اقدامِ قتلِ کی وارداتیں پیش آئی ہیں،۔ یہ واردات براہِ راست لاء اینڈ آرڈر کو متاثر کررہی ہیں۔ موڈبدری میں پیش آئے قتل کی واردات کی وجوہات فرقہ واریت تھی ، یعنی دو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مابین جھڑپ کا نتیجہ جب کہ کاوور نامی علاقے میں پیش آنے والی قتل کی واردات جائداد کو لے کر تھی ،۔ اس کے علاوہ دو قتل کی واردات جو کہ تھوکوٹو اور موڈوشیڈے نامی علاقے میں پیش آئی یہ گینگ وار کا نتیجہ تھا۔ جب کہ بقیہ دو قتل یہاں جیل میں بھی پیش آئے جن دونوں کا لنک انڈرورلڈ سے بتایا جارہا ہے۔اسی طرح کاوور امبیکا 7اکتوبر کو محمد نامی شخص پر جان لیوا احملہ کیا گیا ، نو اکتوبر کو پرشانت پوجاری (27) جو کے بجرنگی تھا اس پر حملہ کیا گیا، چھبیس اکتوبر کو راؤڈی شیٹر وعرف وکرم پر حملہ ہوا، اسی گینگ وار کا بدلہ اس حملے کے تیسرے دن دیکھنے میں ملا، اسی طرح کی کئی تفصیلات کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں دہشت پھیلانے کی منظم سازش رچی جارہی ہے ، او رپھر اس طرح آئے دن گینگ وار، قید خانوں میں گروپ وار، اور پھر فرقہ واریت کی وجہ سے عام عوام پریشان ہیں، جو مذہب و سماج کے فرق سے پرے ایک پرسکون زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ 

Share this post

Loading...