کیا تیل کی بڑھتی قیمتوں سے ماہی گیری پیشہ کو بھی نقصان پہنچا ہے ؟؟

 

بھٹکل : یکم اکتوبر 2018(فکروخبر نیوز) تیل کی بڑھتی قیمتوں نے لوگوں کی کمر توڑڈالی ہے ۔ اس کے خلاف آپ جتنی چاہے اپنی آواز بلند کریں لیکن ایسے محسوس ہورہا ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے طول پکڑنے والا ہے۔ آئے دن اس میں اضافہ کی وجہ سے لوگ اب حکومت کو کوسنے لگے ہیں ، اس سے ایک طرف جہاں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے وہیں تیل کے ذریعہ سے چلنے والی کشتیوں کے مالکان بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔اور ماہی گیر طبقہ اب مچھلیوں کے شکار میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ہے ۔ خصوصاً ریاست کے ساحلی اضلاع میں ماہی گیری پیشے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس میں بھی مٹی کے تیل سے چلنے والی چھوٹی کشتیوں کے مالکان کی پریشانی میں اضافہ اس وجہ سے دیکھا جارہاہے کہ مٹی کا تیل صحیح طرح سے فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے ماہی گیروں کو کیروسین سبسڈی کے ساتھ دیا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت کے پی ٹی ایس سسٹم کے تحت اب کیروسین صرف کھانے کی اشیاء پکانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ریاستی حکومت کیروسین سبسڈی کے ساتھ پچھلے دو سال سے فراہم کرتی آرہی تھی لیکن اب ان میں سے پچاس فیصد لوگوں کا کیروسین بند کردیا ہے جس کی وجہ سے گمان کیا جارہا ہے کہ جو ماہی گیر کوشش کرکے اپنا پیشہ چلارہے ہیں وہ بھی بند ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ حکومت نے ماہی گیروں کو پی ڈی ایس قانون اور آسانی سے مٹی کا تیل فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کیروسین سے چلنے والی مشینوں کو ڈیزل کی مشینوں سے بدل دینے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس طرح کرنے کے لیے تقریباً پاؤنے دو لاکھ روپئے کا خرچ آرہا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی درستگی کے لیے زیادہ رقم صرف ہوتی ہے۔ ماہی گیر اب سوچ رہے ہیں کہ ماہی گیر ڈیزل سے چلنے والی میشنوں کا خرچ برداشت سے کرنے سے قاصر ہیں۔

Share this post

Loading...