علی پبلک اسکول کے میٹنگ ہال میں منعقدہ خصوصی نشست میں تمام علماء نے اپنے اپنے مسائل رکھے اور جس نوعیت سے کام ہورہاہے اس کو بھی رکھا اور ساتھ ہی مسائل کو بھی رکھا تواس موقع پر رہنمائی فرمارہے مشہورعالمِ دین مولانا الیاس ندوی نے اسلامیات کے نصاب کے سلسلہ میں کئی ساری تفصیلات رکھی تو وہیں علی پبلک اسکول کی درس و تدریس کی نوعیت اور نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ عقائد کے سلسلہ میں کسی بھی طرح سمجھوتہ نہ کرنے کی بات کہی اور اس سلسلہ میں مہاڈیا شریوردھن میں ایک ورکشاپ کے انعقاد کا بھی فیصلہ اسی نشست میں لیا گیا،بعد از ظہرانہ اسی نشست کو جامعہ اسلامیہ میں آگے بڑھایا گیا۔ اس موقع پر مہتمم جامعہ اسلامیہ مولانا مقبول کوبٹے ندوی، مولاناشعیب ائیکری ندوی ، مولانا افضل شاہ بندری و دیگر اساتذہ کرام موجو د تھے۔
فکروخبر صر ف ایک صحافتی ادارے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل تحریک کا نام ہے :ایڈیٹر فکروخبر
مذکورہ بالا وفد نے جامعہ اسلامیہ سے دفتر فکروخبر پہنچ کر یہاں کے دینی و دعوتی صحاتی خدمات کو سمجھنے کی کوشش کی تو مختصر وقت میں تمام علماء کے سامنے فکروخبر کی تفصیلات رکھتے ہوئے ایڈیٹر فکروخبر مولانا انصارعزیزندوی نے کہا کہ فکروخبر کو صرف صحافتی ادارہ نہ سمجھیں بلکہ فکروخبر ایک مکمل تحریک کا نام ہے، مگر صحافتی میدان کو اپنا کرہی فکروخبر اپنی تحریک کو آگے بڑھائے گا۔ مختصر مدت میں فکروخبرٹیم کے ملک کے مختلف ریاستوں اور شہر وں میں جو دورے ہورہے ہیں وہ اسلامی صحافت کو فروغ دینے اور ملک بھر میں دینی ودعوتی اور اُمت کو متحد رکھنے کی جتنی بھی کوششیں ہورہی ہیں اس کو جلی سرخیوں میں دینا ، اس کو سراہنا اور عوام کے سامنے لانا بھی فکروخبر کی تحریک کا ایک حصہ ہے ، جب فکروخبر ہندوستان کے تمام شہروں اور ریاستوں تک اپنی بات پہنچانے کی سکت رکھے گا اُس وقت انشاء اللہ آن لائن کے ساتھ ہی فکروخبر کو کوئی اور شکل دی جائی گی جس کو آپ سٹیلائٹ چینل بھی کہہ سکتے ہیں،(انشاء اللہ ) ملحوظ رہے کہ آن لائن صحافت کو لے کر اور کم مدت میں پورے ملک میں جھنڈے گاڑنے کو لے کر بھی سوالات کئے گئے جس کا ایڈیٹر فکروخبر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بانیان کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔
Share this post
