اور بھٹکل کی تاریخ میں لکھی جارہی ایک نئی تاریخ کے گواہ سینکڑوں افراد بنے اس اس افتتاحی نشست کے برکات کو لوٹنے کے لئے اس مجلس میں شریک تھے، افتتاحی کارروائی کے بعد مدرسہ کے آنگن میں ہی ایک خوبصورت مجلس سجائی گئی تھی جہاں تلاوتِ قرآن پاک کے بعد شہر بھٹکل کے مشہور ومعروف علماء کرام اور اساتذہ جامعہ عوام کو دین سے حد درجہ محبت کرنے اور بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے نظر آئے اور ہر ایک نے اپنا درد عوام کے سامنے رکھا۔ اس موقع پر اولاً استاد تفسیر جامعہ اسلامیہ بھٹکل وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے پر اثر خطاب میں کہا کہ برصغیر کے مسلمانو ں میں ہزاروں خامیوں کے باوجو د دین سے جو لگاؤ، وابستگی اور دینی حمیت جو باقی ہے وہ انہی مدارس کا فیض ہے۔ ہندوستان میں اگر آج مسلمان پر امن ادیندار ہے تو وہ انہی مکاتب اور مدارس کی وجہ سے ہے۔ جس دن ہم ان مدراس اور علماء سے دور ہوجائیں گے یا کوئی آنچ بھی آجائے تو پھر مسلمانوں کا زوال شروع ہوجائے گا ۔مولانا نے مزید اپنے بیان کو حساس اور بناتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کا تعلق دین سے ختم کرنے کی کوشش کی،سازش رچی مگروہ ناکام ہوگئے، دشمن نے اپنے ناکامی کے اسباب پر غو ر کرنا شروع کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کے یہ چھوٹے چھوٹے مدرسہ اور مکاتب ہی ہیں جو مسلمانوں میں دین کی روح کو پھونک رہے ہیں تو انہوں نے ان مدارس کو ختم کرنے کی ٹھانی اور منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو ان مدارس سے اس طرح بدظن کرنے لگے اور مدراس اور اس کے طلباء کے سلسلہ میں اتنا جھوٹ بولا گیا کہ خود مسلمان مدارس کے خلاف بولنے لگے ۔مگر دشمنانِ اسلام کی ان چالوں سے برصغیر کے مسلمان محفوظ ہیں ۔ دشمنوں کی ان کوششوں کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں میں دین سے لگاؤ او رجو دینی حمیت باقی ہے تو یہ مدارس کی فیض اور برکت ہے۔ مولانا نے اہلِ بھٹکل پر ہورہی خصوصی نعمتوں کی وجہ ان مدارس کے وجود کو بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کارگیدے کا مکتب مکاتب کی تعداد میں اضافہ کے مقصد سے قائم نہیں کیا گیا ہے بلکہ شہر میں جو جامعہ کے مکاتب قائم ہے ان کی عمارتیں ناکافی ہونے کی وجہ سے اس مکتب کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ مولانا نے ایک بڑی اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عو ام کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جامعہ کے ہوتے ہوئے قوم میں بہت ساری خرابیاں ہیں تو مولانانے عوام کو یہ کہتے ہوئے سوچنے پر مجبور کیا کہ علماء کی نکیر اور دینی مدارس کی اتنی کثرت کے باوجود اگر کوتاہیاں اور برائیاں ہیں تو ایک لمحے کے لیے یہ سوچ کر دیکھئے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو معاشرے کا کیا حال ہوتا مولانا نے صاف کہا ۔یاد رکھئے اگر یہ مکاتب قائم نہ ہوتے تو جو خرابیوں کا طوفان بڑھ رہا ہے وہ دس گناتیزی سے آجاتا اور شاید اللہ کا عذاب آچکا ہوتا۔ نائب صدر جامعہ وقاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا محمد اقبال ملا ندوی نے کہا کہ ایمان کی حفاظت کے لیے ان مدارس کا قیام ضروری ہے۔مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل وامام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبدالباری ندوی نے اس شاخ کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں مولانا موصوف نے الفلاح ایسوسی ایشن کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس جلسہ کے انعقاد کی ذمہ داری قبول کی۔ اس موقع پر استاد الاساتذہ مولانا صادق اکرمی ندوی صاحب نے بھی عوام کو شبینہ مکاتب اور مدار س جوڑنے کی تلقین کی اور کہا کہ اولاد کو دین پر قائم رکھنے کے لئے اس طرح کے مدارس ومکاتب ضروری ہیں۔۔ ان کے علاوہ ناظم جامعہ جناب ماسٹر شفیع صاحب نے مدارس کی اہمیت پر مفید باتیں پیش کیں۔ اس موقع پر عوام کا ایک جم غفیر موجود تھا۔ ملحوظ رہے کہ اس جلسہ کی نظامت مولاناانصار خطیب ندوی مدنی نے خوبصورتی سے انجام دی ۔
Share this post
