جامعہ علوم القرآن کے وسیع وعریض اور عالیشان کیمپس میں شہریت، ہبہ اور استصناع کے موضوعات پر جاری سمینار کے دوسرے دن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی نے اس رجحان پر تشویش کا اظہار کیا کہ لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ صدر بورڈ نے اکیڈمی کی عصری اور قدیم مسائل میں فکری اور فقہی کاوشوں کی زبردست ستائش کرتے ہوئے کہا کہ سمینار کے لیے جو موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے وہ کافی اہم اور عصری تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ مولانا حسنی ندوی نے میراث پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں بالخصوص ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو وراثت میں حق دینے کے معاملہ میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ انہوں نے زور دیا ہ سمینار میں اس معاملہ پر غور وفکر کرکے اس کی بہتر صورت عوام الناس کے سامنے پیش کی جائے۔اس سے قبل فقہ اکیڈمی کے علمی امور کے سکریٹری مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی نے بچہ گود لینے کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ پر کہا کہ یہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے۔ اس کے سد باب کے سلسلہ میں ہمیں غور وفکر کرنا چاہئے۔سمینار کی پہلی نشست میں شہریت اور اس سے متعلق حقوق کے موضوع کے ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ محققین اور اسکالروں نے اس موضوع پر ۳۲ مقالے پیش کیے جس میں موجودہ دور کی اصطلاح شہریت (Citizenship) اور قومیت (Nationality) پر بھر پور روشنی ڈالی گئی۔ پناہ گزینوں کے مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی گئی، کیونکہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین مسلمان ہی ہیں اور اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق تمام قومیتوں میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس بارے میں اکثر مقالہ نگاروں کا رجحان یہ رہا کہ ظلم وزیادتی یا خانہ جنگی کی وجہ سے ترک وطن کرنے والے مسلمان پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے مسلم ملک پر شرعاً یہ ضروری ہے کہ وہ ان مہاجرین کو تمام حقوق وسہولتیں فراہم کرے۔ مسلم ملک میں کسی غیر مسلم کو شہریت دینے کے معاملہ پر اکثر مقالہ نگاروں نے کہا کہ مکہ ومدینہکے سوائے کسی بھی مسلم ملک میں غیر مسلموں کو آباد کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ان کو شہریت دینے میں قومی، ملی اور ملکی مصالح کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ ایک دوسری نشست میں وصیت نامہ کے ذریعہ ورثاء کے شرعی حصص اور حقوق کا تعین کے موضوع پر زبردست اور دلچسپ بحث ہوئی، خاص طور پر اس موضوع پر ایک مسلمان اگر غیر مسلم ہوجائے تو کیا اس کی وصیت باقی رہے گی؟ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہوجائے تو اسلام لانے کے بعد کیا اس کو شرعی حق حاصل ہوگا؟ علاوہ ازیں مختلف مغربی ملکوں میں اقلیت میں آباد مسلمانوں کے لئے وراثت کی شرعی تقسیم اور دیگر غیر مسلم رشتہ داروں کو مسلمانوں کا وارث قرار دیئے جانے کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر تقریباً ۶۴ مقالات پڑھے گئے۔ ان میں یہ سوال کھڑا کیا گیا کہ جن ملکوں میں اسلام کا نظام قانون میراث نافذ نہیں وہاں کے مسلمانوں کے لئے زندگی ہی میں اس طرح کا وصیت نامہ لکھ دینا جائز ہے یا ممنوع؟
اس کے بعد کی نشست میں ہبہ سے متعلق بعض مسائل بھی زور دار انداز میں زیر بحث آئے۔ ۷۰ مقالات اس موضوع پر پیش کیے گئے۔ عموماً لوگ احکام شرعیہ سے واقف نہیں ہوتے اس لئے بعض اختیارات کو استعمال کرنے کا جو طریقہ کار ہے اس پر عمل نہیں کرتے۔ ان ہی میں ایک ہبہ کا مسئلہ ہے۔ حنفی فقہ میں ہبہ کے درست ہونے کے لئے اس کا مقصوم ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہبہ مشاع درست نہیں۔ ان جیسے سوالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔مذکورہ اور دیگر موضوعات پر کل کے اجلاسوں میں بھی گفتگو ہوگی اور ان کے سلسلہ میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کی ان مسائل کے سلسلہ میں صحیح اسلامی رہنمائی ہوسکے۔ واضح رہے کہ فقہ اکیڈمی نے اب تک اپنے پچھلے ۲۲ سمیناروں میں ۹۲ مرکزی موضوعات کو زیر بحث لایا اور بہ حیثیت مجموعی تقریباً ۵۵۰ جزوی مسائل پر اس نے فیصلے کیے جسے نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس موقع پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری جنرل اور امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ واڑیسہ مولانا سید نظام الدین صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات پر عارف اقبال کی مرتب کردہ کتاب کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
![]()
Share this post
