دراصل بعد نمازِ مغرب لجنۃ الحفاظ کے سکریٹری مولانا اشرف علی رشادی کے نظامت میں باقاعدہ اس جلسہ کا آغاز ہوا، قبل نماز مغرب مہمانان کو لجنۃ کی جانب سے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا، اس موقع پر جمعیۃ الحفاظ بھٹکل کے صدر مولانا نعمت اللہ ندوی کو اعزاز سے نوازا گیا جنہوں نے تاریخ میں پہلی بار اپنے رفقاء کے ساتھ سرزمینِ بھٹکل میں پہلی بار نابینا حفاظ کے مابین حفظ مسابقہ رکھ کر تاریخ رقم کی تھی بلا شبہ اس میں جمعیۃ الحفاظ کے دیگر ذمہ داران کا بھی ہاتھ ہے ۔ ان کے علاوہ صدر جلسہ مولانا مولانا اشرف علی باقوی دامت برکاتہم کے علاوہ دیگر مہمانان کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔اس موقع پر جمعیۃ الحفاظ کے صدر مولانا نعمت اللہ ندوی کے علاوہ مولانا زکریا والا جاہی اور مولانا اشرف علی باقوی صدر جلسہ نے بھی اپنے اپنے بیانات میں عوام کو قرآ ن کے ساتھ وابستہ ہونے اور اولاد کو اس نعمت سے مالامال کرنے کی تلقین کی۔ اس جلسہ میں مہمان خصوصی کے طور پر سہارنپور سے مولانا محمد شاہد مظاہری بانی و ناظم جامعہ فلاح دارین سہارنپور اور مولانا قاری مصطفیٰ دہلوی شاہی امام اُترپردیش نے بھی شرکت کی تھی۔
جلسہ کے ناظم اور جلسہ کو منعقدکرنے میں خوب تگ ودو کرنے والے بلکہ ساری ذمہ دارایاں اکیلے ادا کرنے والے مولانا اشرف علی رشادی کے اعلان کے مطابق بعد نمازِ مغرب باقاعدہ حفظِ قرآن مسابقہ کا آغاز ہوا۔ قریب گیارہ حفاظ نے رات قریب دو بجے تک اپنے اپنے حفظ قرآن کا مظاہر ہ کیا اور تین حکم صاحبات کے مختلف اور مشکل سوالات پر قرآن کی تلاوت کرتے رہے ، اس مسابقے کے میں بالآخر تین بنگلور سے تعلق رکھنے والے نابینا حافظ نورالحق بنگلوری پہلا مقام حاصل کیا تو بھٹکل سے تعلق رکھنے والے حافظ انیس بھٹکلی نے دوسرا اور یوپی کے بلند شہر سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد کاشف تیسرے نمبر پر رہے ۔ تمام حفاظ کو اعزازی انعمات دئے جب گئے اول دوم سوم آنے والے حفاظ کو بالترتیب ایک لاکھ ، پچہتر ہزار اور پچاس ہزار نقد انعامات دئے گئے۔ ملحوظ رہے کہ حفاظ کے اس مسابقہ کے درمیان میں بنگلور کے کئی مشہور قراء نے اپنی قرأت سے لوگوں کو محظوظ کیا ۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگراس محفل میں دیگر مذاہب کے عوام کو بھی دعوت دیتے: مولانا سید سلمان حسینی ندوی
اس جلسہ کے مہمانِ خصوصی مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کو دوران مسابقہ ہی خطاب کے لئے دعوت دی گئی تو مولانا نے اس موقع دلدوز اور پر اثر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پوری انسانیت کی کتاب ہے یہ صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے، اس کے مخاطب جس طرح مسلمان ہیں اسی طرف دوسری اقوام کے لوگ بھی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر زیادتی کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ مسلمان اس کو صرف اپنی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں اور اس کو انسانیت کے سامنے دستور العمل کے طور پر پیش نہیں کررہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھتے ہوئے اس کو دوسرے اقوام کے لوگوں تک بھی اس کا پیغام عام کرنے کی کوشش کریں تاکہ قرآن کا پیغام گھر گھر پہنچ جائے۔ مشہور عالم دین اور بے باک مقرر، استاد حدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتھم نے اس موقع پر شکایتا کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اس محفل میں ہمارے دیگر مذاہب کے بھی احباب ہوتے اور قرآن کے اس زندہ معزے کو اپنے آنکھوں سے دیکھتے ۔ اور ممکن ہوتا کہ اس معجزے کو دیکھ کرئی لوگ کلمہ توحید کی گواہی دیتے ۔ مولانا نے اُمید ظاہر کی کہ اس سلسلہ میں عالمی سطح پر ایسے مقابلوں کا انعقاد کرکے دنیا بھر کے دیگر مذاہب کے ان کے اپنی اپنی دھرم کتابوں کو یاد کرنے والوں کو دعوت دی جائے اور پھر محبت اور امن کے ماحول میں مسابقہ ہو۔ اس سے خلیج ختم ہوگی اور ایک دوسروں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور غلط فہمیاں دور ہوں گی ۔ خطاب کے آغاز میں مولانا نے کہا کہ قرآن جس طرح چودہ سو سال پہلے معجزہ تھا وہ اب بھی اسی طرح معجزہ ہے اور یہ ایسا معجزہ ہے کہ اس طرح کا معجزہ کسی دوسرے نبی کو نہیں دیا گیا۔ قرآن حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی کے معجزوں سے بڑا معجزہ ہے آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس معجزہ کو صرف تبرک ، بیماروں کی شفا اور قرآن خوانی کی کتاب سمجھ لیا ہے ۔ جن لوگوں نے قرآن کے پیغام کو مان لیا اور اس کو دستور العمل تسلیم کرلیا ان کی ذمہ داری ہے کہ قرآن کے حقوق کو ادا کریں ۔ قرآن کریم کے جہاں کئی حقوق ہیں وہیں قرآن کریم کایہ بھی حق یہ ہے کہ اس کا پیغام دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کرکے ان تک پہنچا جائے۔مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ان کے پاس دیگر پیغامات پڑھنے کے لیے وقت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا پیغام پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے اور نہ وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کو پڑھا جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔مولانا نے اس کے پیغام کی نشرواشاعت کرنے پر عوام کو ابھارتے ہوئے کہا کہ دین کی ہر بات اسی لیے ہے کہ اس کو عام کیا جائے اور قرآن تو اس کا اصل ہے اس کے پیغام کو جتنا چاہے عام کرنا چاہیے۔ مولانا نے اپنے پر اثر خطاب میں قرآن کے عالمگیر ہونے کو ثابت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اسی طرح دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور یہ قرآن کا پیغام تمام دنیائے انسانیت کے لیے بھیجا گیا ہے مولانا نے مسلمانوں کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ یہ اکیسویں صدی مسلمانوں کی صدی ہے ۔ آج کے اس پروگرام میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم غیر مسلموں کو دعوت دیتے اور ان کو بڑے اہتمام سے یہاں بٹھا کر ان کو قرآن کے معجزہ ہونے کی بات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کا موقع عنایت کرتے ۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ حفظ قرآن کے معجزے میں دیگر مذاہب کی کوئی بھی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
(ملحوظ رہے کہ جلسہ کا میڈیا پارٹنر فکروخبر نے اس پورے جلسہ کولائیو ٹیلی کاسٹ کیا تھا، فوٹو گیلری میں اس جلسہ کی تمام تصاویریں ملاحظہ کرسکتے ہیں)
Share this post
