کلفی اور بازاری چٹپٹی چیزوں کے عادی ہوشیار ہوجائیں !!

اسی طرح فکروخبر کو جب یہ خفیہ اطلاع ملی کہ شہر بھٹکل میں تین ایسی ٹیمیں ہیں جو کلفیاں فروخت کررہی ہیں او ران لوگوں کی عادت ہے کہ یہ لوگ کلفیوں کو تیار کی جانے والی جگہوں کو خفیہ رکھتے ہیں اور شہر کے باہر ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں عوام آسانی کے ساتھ نہیں پہنچ پاتی ۔ فکروخبر کی خصوصی ٹیم فوری متحرک ہوکر کلفی فروخت کرنے والے اور ان کی جگہوں کی تلاش کردی اور بالآخر کلفی فیکٹری پر ہمارے نمائندوں نے قدم رکھا تو حیران و ہکا بکا رہ گئے ۔ جو عوام کلفی کو مزے لے لے کر کھاتی ہے اگر وہ اس کے تیار کرنے کے منظر کو دیکھیں تو کلفی اور اس کی طرح کی بازاری اشیاء کھانے سے نہ صرف پرہیز کریں گے بلکہ ایسی چیزوں سے گھن محسوس کرنے لگیں گے ۔ وہاں کا منظر کچھ ایسا تھا کہ کلفی میں استعمال کی جانے والی اشیاء کی اگر مینو فیکچرتاریخ جاننے کی کوشش کی جائے تو اس پر کوئی ایسا لیبل چسپاں نہیں ہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ شئی کب تیار کی گئی اور اس کے استعمال کی مدت کیا ہے؟؟ ۔ جس جگہ کلفی آئس کریم تیار کی جارہی تھی اس کے چاروں جانب ایسی گندگی پھیلی ہوئی تھی جس کا تذکرہ ناممکن ہے ۔ بچی ہوئی کلفیوں کو دوسرے دن کی کلفیوں میں ملا کر پھر اس کو دوبارہ پکاکر فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ تیار کرنے والوں کا حال صاف ستھرائی کے اعتبار سے ناقابلِ بیان ہے ۔ ہمارے نامہ نگاروں نے اُس منظر کو بھی دیکھاکہ کلفیاں بنائی جانے والی پتیلی کا ڈھکن نہ ڈھانپنے کی وجہ سے اس پر کیڑے مکوڑے گرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد نامہ نگاروں نے صفائی کے سلسلہ میں ان لوگوں سے جب یہ سوال کیا کہ جس چیز میں رکھ کر کلفی بیچی جاتی ہے اس مخصوص تریکون کو کیا ہر دن صاف کیا جاتاہے ؟ تو ان لوگوں کا جواب تھا کہ دودن میں ایک بار اس کو صاف کیا جاتا ہے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان بازاری چیزوں کو ہم چٹپٹی او ر لذیذ سمجھ کر کھاتے ہیں وہ کس قسم کے غلیظ ماحول میں بنائی جاتی ہے ۔ ان تمام افراد کا تعلق بھٹکل میں کلفیاں بیچنے والی تین مختلف ٹیموں سے ہے جو یوپی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جب ہمارے نامہ نگاروں سے فوڈ آفیسر کی اجازت نامہ دریافت کیا تو اجازت نامہ تو دور کی بات شناختی کارڈ بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے ۔ ہمارے اس خصوصی آپریشن سے کسی کی تجارت اور ذات کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ ایک سچ کو سامنے لانا ہے جس سے عوام کو حقیقت کا علم ہوجائے ۔ صحافت کی بڑی ذمہ داری ہے کہ عوام کے مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے عوام کو آگاہ کرنا ہے اور ضلع انتظامیہ اور فوڈ افسران کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ شہر میں فروخت کی جانے والی بعض اشیاء جس کو عوام ، بچوں او ربالخصوص اسکولی بچوں جس کے عادی ہوتے ہیں ان کو بیماریوں محفوظ رکھا جاسکے۔ ہم ضلع انتظامیہ اور تعلقہ کے فوڈ انسپکٹر سے اپیل کرتے ہیں کہ متعلقہ افراد پر آئینِ ہند کے مطابق غذائی اشیاء فروخت کرنے میں جتنے بھی قوانین ہیں وہ لاگو کیے جائیں تاکہ عام باشندے اور بالخصوص بچے بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ 

(تصاویر فوٹو گیلری میں دیکھ لیں )

Share this post

Loading...