کاروار02؍جون 2024 (فکروخبرنیوز) گذشتہ تین دہائیوں سے بی جے پی کا گڑھ سمجھی جانے والے اتراکنڑا لوک سبھا سیٹ پرکس کی جیت ہورہی ہے اس کا اندازہ لگانا اس بار تھوڑا مشکل لگ رہا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے وشویشور ہیگڑے کاگیری اور کانگریس کی طرف سے ڈاکٹر انجلی نمبالکر میدان میں ہیں اور دنوں جیت کو لے کر پرامید ہیں۔
کس کی جیت ہورہی ہے؟
اس پارلیمانی حلقہ میں کس کا پلڑا بھاری ہے لیکن کہنا تھوڑا مشکل ضرور ہے۔ کانگریس نے ڈاکٹر انجلی نمبالکر کو میدان میں اتارکر سیاسی کھیلا۔ ان کا تعلق مراٹھی برادری سے ہے اور خانہ پور اس کے آس پاس بسنے والی مراٹھی برادی کا ووٹ ہمیشہ بی جے پی کو حاصل ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ توقع کی جارہی ہے کہ مراٹھی برادری نے ڈاکٹر انجلی نمبالکر کو جیت دلانے کے لیے کوششیں کیں ہیں۔
مراٹھا کمیونٹی کی حمایت
انجلی نمبالکر کا تعلق خانہ پور سے اور ان کا تعلق مراٹھی برادری سے ہے۔ یہ اس کے لیے ایک پلس ہے کہ اس حلقے میں اس کمیونٹی کے ووٹرز کی بڑی تعداد ہے۔ ہر بار یہ ووٹ بی جے پی کے حق میں جھکائے گئے۔ لیکن اس بار یہ تجزیہ ہے کہ وہ برادری کے امیدوار کو سپورٹ کرنے جا رہے ہیں۔
آننت کمار ہیگڈے کی ناراضگی
آننت کمار ہیگڈے سے ٹکر لینے کےلیے کانگریس نے اس سے قبل بڑے حربے استعمال کیا ہے لیکن صرف انہیں ایک بار ہی کامیابی ملی جب مارگریٹ آلوا 1999 کے لوک سبھا انتخابات میں آننت کمار کو پیچھے چھوڑ دیا لیکن اس کے باوجود بی جے پی نے 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں آننت کمار ہیگڈے کو ہی میدان میں اتارا اور انہوں نے دوبارہ بی جے پی کو اس سیٹ پر کامیابی دلائی۔ اس وقت سے آج تک وہ اس سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں لیکن اس مرتبہ وہ بی جے پی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ان کی جگہ بی جے پی نے وشویشور ہیگڑے کاگیری کو میدان میں اتارا ہے۔ انتخابی مہم میں آننت کمار ہیگڈے کہیں نظر نہیں آئے جس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ان کی ناراضگی کے خمیازہ وشویشور کاگیری کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
وشویشور کاگیری پرامید کیوں؟
دوسری طرف کل چھ مرتبہ اسمبلی انتخابات میں اپنی جیت کا پرچم لہرانے والے وشویشور کاگیری ہیگڑے نے بھی پورے حلقہ میں اپنے مہم چلائی اور پارٹی لیڈران کو ساتھ میں لے کر چلنے کی کوشش کی۔ کاگیری اس وجہ سے بھی پرامید ہیں کہ ان کے انتخابی مہم کے لیے سرسی میں وزیر اعظم مودی نے خوش شرکت کی۔ انہیں لگ رہا ہے کہ وہ ایک لاکھ ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کررہے ہیں۔
ویسے تو اس سیٹ سے 7 امیدوار میدان میں تھے لیکن ٹکر سیدھے کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔
اب نظر 4 جون پر ٹکی ہے جہاں ان دونوں کا فیصلہ ہونا ہے۔
Share this post
