۔ پولیس نے کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک خودکشی سے متعلق کوئی نوٹ نہیں ملا ہے ۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ابھی تک یہ نہیں پتہ چلا ہے کہ کیا اس کے اس انتہائی قدم اٹھانے کے پیچھے یونیورسٹی کا کوئی مسئلہ ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے وہ ذاتی وجوہات کو لے کر ڈپریشن میں تھا ۔ پولیس نے اس کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی ۔
سپریم کورٹ کا پاريكر کی حلف برداری پر روک سے انکار، 16 مارچ کو اسمبلی میں فلور ٹسٹ کا حکم
نئی دہلی۔ 14؍مارچ(فکروخبر/ذرائع )سپریم کورٹ نے گوا کے وزیر اعلی کے طور پر مسٹر منوہر پاریکر کی حلف برداری پر روک لگانے سے آج انکار کرتے ہوئے اسمبلی میں فلور ٹسٹ کرنے کے لئے 16 مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر کی صدارت والی بنچ نے درخواست گزار چندرکانت كانویكر کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی اور مرکزی حکومت کی جانب سے ہریش سالوے کی دلیلیں سننے کے بعد کہا کہ وہ مسٹر پاریکر کی حلف برداری کی تقریب پر روک نہیں لگائے گي۔ عدالت نے گوا اسمبلی میں 16 مارچ کو 11 بجے طاقت کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا۔ کورٹ نے 15 مارچ تک فلور ٹسٹ کرنے سے متعلق ضابطہ کی کارروائی پوری کرنے کا بھی حکم دیا۔تقریباً پونے دو گھنٹے تک جاری رہی بحث پر غور کرنے کے بعد عدالت نے کہا کہ وہ حلف برداری کی تقریب پر روک لگانے کے حق میں نہیں ہے۔عدالت عظمی نے درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ اس درخواست میں اٹھائے گئے تمام پہلوؤں کا صرف ایک جواب ہے فلور ٹسٹ، جس کے لئے جمعرات (16 مارچ) کے 11 بجے کا وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے عدالت عظمی نے مسٹر سنگھوی سے کئی اہم سوال کئے۔ جسٹس کیہر نے پوچھا کہ اگر کانگریس کے پاس اکثریت تھی تو اس نے گورنر کے سامنے جا کر اس کا دعوی کیوں پیش نہیں کیا یا راج بھون کے باہر دھرنا کیوں نہیں دیا؟ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں ان ممبران اسمبلی کی تعداد کا بھی ذکر نہیں کیا ہے، جو کانگریس کی حمایت میں ہیں۔ کورٹ نے کہا، 146اگر آپ (کانگریس کے) کے پاس اکثریت تھی تو آپ ممبران اسمبلی کا حلف نامہ کیوں نہیں ساتھ لائے، جس سے آپ کی اکثریت ثابت ہو سکے۔145 اس پر مسٹر سنگھوی نے کہا، 146کانگریس کے پاس مکمل اکثریت ہے اور وہ آج بھی فلور ٹسٹ میں شامل ہونے کو تیار ہے۔145 انہوں نے کہا کہ گورنر نے تعصب میں مبتلا ہو کر بی جے پی کو حکومت بنانے کی دعوت دی ہے، جبکہ کانگریس وہاں سب بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔اس پر عدالت نے واضح کیا کہ سب سے بڑی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے مدعو کرنا ممبران کی تعداد پر انحصار کرتا ہے۔کانگریس لیڈر نے مسٹر پاریکر کے وزیر اعلی کے طور پر حلف برداری کی تجویز کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حلف برداری کی تقریب پر روک کی مانگ کی تھی۔ درخواست گزار کی دلیل تھی کہ 40 رکنی گوا اسمبلی میں کانگریس 17 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 13 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود دوسرے نمبر کی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا ہے جو غیر قانونی ہے۔عدالت عظمی میں پورے ہفتے چھٹی تھی، لیکن معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ کے سامنے عرضی کو آج سماعت کے لئے درج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ مسٹر پاریکر شام پانچ بجے گوا کے وزیر اعلی کے طور پر حلف لینے والے ہیں۔ مسٹر پاریکر نے وزیر دفاع کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
الخبراور ریاض کے شعراء کی بیدر آمد پرکامیاب مشاعرہ کاانعقاد،یاران ادب بیدر کے زیراہتمام تہنیت
مشاعرے اردو کی پہچان اور ضرورت ہیں:مؤرخ عبدالصمد بھارتی
بیدر۔14؍مارچ(فکروخبر/ذرائع ) ریاض (سعودی عرب) سے تشریف لانے والے شعراء کی بیدر آمد کے موقع پر یاران ادب بیدر کے زیراہتمام مسیح الدین احمد قریشیہ الماس میموریل ہال ، تعلیم صدیق شاہ بیدر میں اتوار کی شب ایک اعزازی مشاعرہ اور ادبی نشست کااہتمام کیاگیا۔ جس کی صدارت ممتاز مؤرخ عبدالصمد بھارتی نے کی ۔صادق کرمانی (الخبر)، ملک محی الدین(ریاض)، رائچور سے ڈاکٹر افتخار احمدشکیل ، اور گلبرگہ سے ڈاکٹر غضنفر اقبال اور انجینئر عبدالقدیر عرفان نے مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ جس کے اعزازی مہمان پروفیسر حشمت فاتحہ خوانی تھے ۔پروگرام کاآغاز اسید کرمانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ملک محی الدین، ڈاکٹر شمس الدین حکیم، امیرالدین امیرؔ ، محمدیوسف رحیم بیدری، حامدسلیم ،حامد محی الدین قادری ،وغیرہ نے مہمانان اور جناب صدر کی شالپوشی اور گلپوشی کی ۔ بیدر آمد پر صادق کرمانی(الخبر) اور ڈاکٹر افتخار احمد شکیل(رائچور) کوبیدر سے تعلق رکھنے والے جواں سال شاعر ملک محی الدین (ریاض) اور بزرگ شاعر امیرالدین امیرؔ نے عالمگیر سطح پرمشہور بیدری صنعت پر مشتمل مومنٹو پیش کیا۔جناب غضنفر اقبال نے کاغذپبلشرز گلبرگہ کرناٹک کی جانب سے خوش فکر سخنور ،موقر کہانی کار اور معتبر صحیفہ نگارمحمدیوسف رحیم بیدری سکریڑی یاران ادب بیدر کی ادبی ، علمی ، سماجی اور ثقافتی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے ممتاز تحقیق کار ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی سابق صدر شعبہ اردوکرناٹک کالج بیدر کے ہاتھوں انہیں تہنیت پیش کی اور مومنٹوسے نوازا۔عظیم بادشاہ (بھالکی) اور پروفیسر مسرورنظامی (بسواکلیان) کی اردو خدمات ،اور جناب عبدالمقتدرتاج ؔ کی اردو خطاطی اورڈیجیٹیل شعبہ میں کی جارہی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے یاران ادب کی جانب سے تہنیت پیش کی گئی۔ ادبی نشست کے تحت ڈاکٹر غضنفر اقبال پرلکھاہوا پروفیسر رؤف خوشتر (بیجاپور) کاتحریرکردہ خاکہ ’’دریافت والا شخص‘‘پیش کیاگیاجس کو حاضرین نے سراہا۔ بعدازاں مشاعرہ کا آغاز میزبان شاعر منورعلی شاہدؔ کے کلام سے ہوا۔نئے شعراء میں ہمناآباد کے محمدجاوید احمد نقیب ؔ ، محمدنصیرالدین نورؔ اور بسواکلیان سے سید تمیزالدین تمیزؔ نے اپنااپناکلام سناکر دادوصول کی ۔ مقصودعلی مقصود ؔ نے اپنے مخصوص انداز میں مشاعرہ پڑھا اور سامعین زیرلب مسکراتے داد دیتے رہے۔ امیرالدین امیرؔ ، حامدسلیم(مزاحیہ شاعر)، میرؔ بیدری، عبدالمقتدر تاجؔ ، عظیم بادشاہ (بھالکی) ، پروفیسر حشمت فاتحہ خوانی ، پروفیسر مسرور نظامی(بسواکلیان) ، ریحانہ بیگم ریحانہ ؔ ، انجینئر عبدالقدیر عرفان ؔ (گلبرگہ)اور باسط خان صوفی ؔ کو بغور سنا اور پسند کیاگیا۔ بزرگ شاعرمحمدکمال الدین شمیم ؔ صاحب نے بیٹھ کر مشاعرہ پڑھا اور لوگ محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ الخبر کے شاعر جناب صادق کرمانی نے ترنم سے پڑھ کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ ملک محی الدین (ریاض) اور ڈاکٹر افتخار احمد شکیل کی شاعری نے تفریح بھی کرائی اور سوچنے پر مجبور بھی کردیا۔ ادبی نشست اور مشاعرہ کے صدر عبدالصمد بھارتی تاریخ داں نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ مشاعرے اردو کی پہچان اور ضرورت ہیں ۔ جیسے جیسے رات بڑھتی ہے ویسے ویسے مشاعرہ پر شباب آتاہے۔ آج میزبان شعراء کو جانے کی جلدی تھی ، اس لئے مشاعرہ کو بریک لگاناپڑالیکن آئندہ ایسا نہ ہو۔ صدارتی خطاب کے ساتھ ہی مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ محمدیوسف رحیم بیدری نے نظامت کی جبکہ ملک محی الدین نے اظہار تشکرکیا۔ اردو صحافیوں میں عبدالصمد منجووالا ، امین نواز ، ڈاکٹر عبدالقدیر قادری، کے علاوہ باذوق احباب میں مولانا محمدابرار خان انجینئر، عبدالصمد صاحب سابقہ صحافی، فراست علی ایڈوکیٹ ، اسلم پاشاہ قادری ،محمدخلیل احمد خان صدر آئیٹا بیدر، عبدالمجید مدرس ، انجینئر ظہیر احمد ، انجینئر شفیع الدین بگدلی ، عبدالحمید،حسین بن عمر،عبدالقدیر بگدلی ، نجم الدین قادری ،محمدیوسف خان ،محمد مفیض احمد،محمدجاوید احمد مالک سوپر کمپیوٹر، زبیر حسینی ، محمدفاروق فارمیسسٹ، پارٹنر سوئٹ لائف بیکرس، عبداللہ مدثر آزادؔ وغیرہ شریک مشاعرہ رہے۔ محمدابرارالدین ، سراج الحسن شادمان نے انتظامی امور کی بخوبی دیکھ بھال کی۔ بسکٹ اور چائے سے تمام کی تواضع کی گئی۔ شرکاء کاخیال تھاکہ کافی عرصہ بعد ایک بھرپورمشاعرہ سننے کو ملا۔
اہل خیر کے تعاون سے آلوؤں کی مفت تقسیم
بیدر۔14؍مارچ(فکروخبر/ذرائع ) ) شہر بیدرایک تاریخی لیکن پسماندہ شہر ہے۔یہاں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے کئی ایک کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک کوشش اردو تنظیم یاران ادب کی ہے ۔ وہ اہل خیر حضرات کے تعاون سے مختلف اشیائے ضروریہ عوام الناس میں بلالحاظ مذہب وملت تقسیم کرتی رہتی ہے۔گذشتہ سردیو ں میں ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹائنڈ،اور فٹ پاتھوں پرسونے والوں میں مفت بلانکٹ تقسیم کئے گئے۔کئی ایک کو دفتر یاران ادب پر بھی بلانکٹ تقسیم کئے گئے۔ پھر جھاڑوؤ ں کی تقسیم عمل میں آئی۔ کافی قیمتی جھاڑوئیں غرباء میں تقسیم کی گئیں ۔ جس کے فوری بعد امتحانات کے پیش نظر تختۂ امتحان مفت تقسیم کئے گئے ، سرکاری اسکول پہنچ کر بھی تختۂ امتحان(Exam Pad) تقسیم کیاگیا جس کے بعد ٹماٹر کی تقسیم عمل میں آئی جو الحاج محمد ظہوراحمد صاحب کی جانب سے فراہم کئے گئے تھے۔ آج تین کنٹل(300 kg) آلو غرباء اور مساکین میں مفت تقسیم کئے گئے جو عبدالرحمن بن عبدالعزیز باغبان کی جانب سے عطیہ کئے گئے تھے۔یہ آلو حاصل کرنے والوں میں تعلیم صدیق شاہ ، چوبارہ ، مستعید پورہ ، نورخان تعلیم ، پکھال واڑہ اور فیض پورہ کے ضرورت مند افراد شامل رہے ۔ہندو،مسلم ، دلت وغیرہ سبھی نے یہ آلو حاصل کئے اورعطیہ کرنے والوں کوبے ساختہ دعائیں دیں۔ محمدیوسف رحیم بیدری سکریڑی یاران ادب اور محترمہ پریملا بائی دفترسکریڑی نے آلو تقسیم کئے۔ محمدابرارالدین نے تعاون کیا۔
چھتیس گڑھ میں سرکار کے شراب بیچنے کی مخالفت میں سڑکوں پر اتری عوام
بلاسپور،چھتیس گڑھ۔14مارچ(فکروخبر/ذرائع ) )ریاستی سرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم اپریل سے ریاست میں چھتیس گڑھ اسٹیٹ ماارکٹینگ کارپوریشن لمنٹیڈ کو شراب بیچنے کا کام اپنے ہاتھ میں لینا ہے ۔کارپوریشن کا صدر چیف سکریٹری کو بنایا گیا ہے ۔ دونوں کو چلانے کی ذمہ داری آبکاری کمشنر کی ہوگی ۔ریاست میں شراب فروخت کرنے کے لئے 712دکانیں بنانے کا منصوبہ ہے ۔ایک دکان بنانے کی لاگت 10لاکھ روپے بتائی گئی ہے ۔اس پر کل 712لاکھ روپے خرچ ہو ں گے ۔واضح رہے کہ 31مارچ تک پرانے شراب ٹھیکے ختم ہو جائیں گے ۔سرکار کے اس فیصلہ کی ریاست بھر میں زبردست مخالفت ہو رہی ہے ۔کچھ نگم پارشدو ں نے کہا کہ جب تک سرکار اپنا فیصلہ رد نہیں کر دیتی دکانیں کھلنے کا امکان بنا رہے گا ۔بلاسپور کلیکٹریٹ میں مظاہرہ کررہی سماجی کارکن ممتاشرما نے بتایا کہ سرکار کاا یہ فیصلہ چھتیس گڑھ آبکاری ایکٹ 1915کی دفعہ 34کی دفعہ(۱)سب سیکشن ڈی / ای کی خلاف ورزی ہے اس کے تحت شراب کی دکانیں بنانے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی مانگ کی ہے ۔چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کے لابھانڈی میں بھی مقامی لوگوں نے سرکاری شراب کی دوکان بننے سے روک دیا۔ وہاں ست سنگ کی عمارت کے قریب یہ دکان بنائی جا رہی تھی ۔عوام کی شدید مخالفت کے چلتے راجدھانی کے کسی بھی زون میں ااب تک ایک بھی دکان کی تعمیر شروع نہیں ہو سکی ہے ۔جبکہ رائے پور نگر نگم کی حدود میں 8دکانیں بنائی جانی تھیں ۔ دو دکانیں بنانے کے لئے 20مارچ تک کا ٹارگیٹ دیا گیا تھا ۔ یاد رہے کہ گجرات ، بہار سمیٹ کئی ریاستوں نے کرائم پر روک لگانے کے لئے شراب کی فروخت پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے لیکن چھتیس گڑھ سرکار نے خود سرکاری کارپوریشن کے ذریعہ شراب بیچنے کا فیصلہ لیا ہے ۔ یہاں کی عوام آئین کی دفعہ 47کے تحت س پر روک لگانے کی مانگ کررہی ہے ۔
مولاناکفیل احمد علوی کی وفات علم و ادب کا خسارہ:مولانااسرارالحق قاسمی
نئی دہلی۔14مارچ(14مارچ(فکروخبر/ذرائع ) معروف عالم دین اور ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی نے دارالعلوم دیوبند کے بزرگ استاذاور شیخ الہند اکیڈمی کے نگراں مولاناکفیل احمد علوی کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہاکہ مولاناکی وفات سے علم و ادب کے شعبے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا دور ہوپانا مشکل ہے۔مولانانے کہاکہ مرحوم خاموش طبیعت کے سادہ و منکسرالمزاج انسان تھے اور انھوں نے کم و بیش نصف صدی تک دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔انھوں نے کہا کہ کفیل صاحب دارالعلوم کے پرانے دور کے فضلاء میں سے تھے،ان کی علمی صلاحیت بھی قابل رشک تھی اور ادبی و شعری خوبیوں سے بھی مالامال تھے،اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک پختہ نگار صحافی بھی تھے اور انھوں نے ایک طویل عرصے تک دارالعلوم دیوبند کے پندرہ روزہ اخباری رسالہ آئینۂ دارالعلوم کی ادارت کی۔مولاناقاسمی نے مرحوم سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی نہایت خوش اخلاقی،خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ پیش آئے۔اللہ نے سادگی وبے نفسی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر رکھ دی تھی،یہی وجہ ہے کہ وہ تازندگی نہایت خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف رہے،انھوں نے دارالعلوم میں مختلف انقلابات دیکھے لیکن ان کانام کبھی بھی کسی تنازع یا اختلافی چیزوں میں نہیں آیا۔مولانااسرارالحق نے کہاکہ گرچہ ہرانسان کاایک وقت معین ہے جس میں اسے اس دنیاسے رخصت ہوناہے،مگرایسے وقت میں جب کہ قحط الرجال کادورہے مولاناکفیل احمد علوی جیسے بے نفس اورپاکیزہ فطرت لوگوں کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانانہایت رنج و افسوس کا موقع ہے۔مولانانے مرحوم کے مغفرت و بلندیِ درجات کی دعا کرتے ہوئے ان کے جملہ متعلقین ووارثین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔
Share this post
