چینئی ایئر پورٹ کا رن وے بھی خشک کردیا گیاہے۔ریاستی حکومت کاکہناہیکہ سیلاب سے متاثرہ تقریبانصف علاقوں میں بجلی بھی بحال کردی گئی ہے۔ کل شام بھی چینئی میں شدید بارش نے عوام کو پریشان کردیا تھا۔ چینئی کے علاوہ تمل ناڈو کے سیلاب سے متاثرہ تین دیگر اضلاع میں بجلی نہیں ہے۔ غذائی اشیا کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ تمل ناڈو کے سیلب کے سبب اب تک 325 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔بتایاجاتاہیکہ مہلوکین کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
چینئی ایر پورٹ کو مکمل طور پر شروع کرنے میں مزید دو دن لگیں گے :مرکزی مملکتی وزیر شہری ہوا بازی مہیش شرما
نئی دہلی،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع) مرکزی مملکتی وزیر شہری ہوا بازی مہیش شرما نے واضح کیا ہے کہ چینئی ایر پورٹ کو مکمل طور پر شروع کرنے میں مزید دو دن لگیں گے۔انہوں نے نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چینئی ایر پورٹ پر تکنیکی فلائٹس کی شروعات کل کی گئی۔ اس ایر پورٹ سے کمرشیل فلائٹس چلانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ایر پورٹ کی عمارت کے بیسمینٹ میں پانی بھرا ہوا ہے اور ٹرمنل بلڈنگ میں بجلی کی سپلائی نہیں ہورہی ہے۔کل چار فلائٹس کے ذریعہ اس ایر پورٹ سے 319مسافرین کو مختلف مقامات بھیجا گیا اور آج چار فلائٹس چلانے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمرشیل فلائٹس چھ دسمبر کے بعد شروع ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ جبل پور واقعہ کی جانچ کے احکام دے دیئے گئے ہیں جس کیلئے ڈی جی سی کی ٹیم جبل پور روانہ ہوگئی ہیں۔
تمل ناڈو کے سیلاب میں پھنسے افراد کیلئے راحت کام بھی جاری
چینئی،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع) تمل ناڈو کے سیلاب میں پھنسے افراد کیلئے راحت کام بھی جاری ہے ۔ ہزاروں فوجی اور سماجی کارکنان ان بے بس افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور انھیں ضروری غذائی اشیا اور کمبل ودیگر سازوسامان کی تقسیم میں مصروف ہیں۔تالاب اور دریاؤں میں سطح اب میں کمی سے کچھ راحت بھی ہوئی ہے ۔ اس بارش سے چینئی کوڈڈا لور کانچی پورم اور تری ولور بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مائے لاپور اور ٹینامپیٹ سمیت کچھ دیگر مقامات پر جزوی طور پر بازار کھلا ہوا ہے ۔بعض دکانیں کھل گئی ہیں۔ ساتھ ہی سطح اب میں کمی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سسٹم بھی جزوی طور پر بحال ہوگیا ہے ۔ آٹو رکشا بھی چل رہے ہیں، لیکن مسافروں سے زائد کرایہ کی وصول کی شکایتیں بھی مل رہی ہیں۔
چینئی میں پھنسے طلبہ کو دہلی ’ حیدرآباد اور پونے بھیجا جارہا ہے :ایر مارشل پی این پردھان
چینئی،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع) چینئی میں سیلاب متاثرین کو بچانے کیلئے ہندوستانی فضائی کے اقدامات پر ایر مارشل پی این پردھان نے کہا کہ ہندوستانی فضائیہ راحت اور بچاؤ کام میں مصروف ہے ۔بڑے پیمانہ پر ہیلی کاپٹرس ’ ٹرانسپورٹ ایر کرافٹس کے ذریعہ راحت سامان بھیجا جارہا ہے ۔ 13ہیلی کاپٹرس اور دوسرے عصری ہیلی کاپٹرس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے چینئی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایر برج قائم کیا گیا ہے کیونکہ منا بھٹکم ایر پورٹ بند کردیا گیا ہے جہاں پر بڑے پیمانہ پر مسافرین پھنسے ہوئے ہیں ۔ ٹامبرم اور منا ماکم کے درمیان اس برج کے ذریعہ مسافرین کو نکالا جارہا ہے ۔ چینئی میں پھنسے طلبہ کو ایرا کونم منتقل کیا جارہا ہے جہاں سے ان طلبہ کو دہلی ’ حیدرآباد اور پونے بذریعہ طیارہ بھیجا جارہا ہے ۔
وجئے واڑہ میں دو فلائی اوور برجس کا نتن گڈکری نے سنگ بنیاد رکھا
حیدرآباد،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع)آندھراپردیش کے ضلع وجئے واڑہ میں دو فلائی اوور برجس کا مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے سنگ بنیاد رکھا ۔درگا مندر کے قریب تعمیر کئے جانے والے فلائی اوورس کے علاوہ وجئے واڑہ تا مچھلی پٹنم چار لین روڈ کے کام کا بھی سنگ بنیاد رکھا ۔ اس موقع پر آندھراپردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو کے علاوہ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو اور دیگر لیڈرانموجود تھے ۔ واضح رہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ تھا جس کو آج حل کرلیا گیا ۔
آندھراپردیش کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ریل اور ٹرافک نظام کی بحالی کا کام ہنوز شروع نہیں ہو پایا
حیدرآباد،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع)آندھراپردیش کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع چتور نیلور پرکاشم میں ریل اور ٹرافک نظام کی بحالی کا کام ہنوز شروع نہیں ہو پایا ہے ۔نشیبی علاقوں سے تین ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ حکام کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں غذائی اشیا اور صاف پینے کا پانی فراہم کیا گیا ۔ سیلاب کے پانی کے سبب کئی مقامات پر سڑکیں بہہ گئیں جس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوئی ۔ ضروری اشیاء کیلئے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہ ھٹیں ترقی یافتہ ممالک: جاوڈیکر
نئی دہلی،06دسمبر (فکروخبر/ذرائع) جنگلات و ماحولیات کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے عالمی حدت کے خطرے کو ایچ آئی وی ایڈز سے بھی خطرناک قرار دیتے ہوئے آج کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔مسٹر جاوڈیکر نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس سلسلے میں اعلی سطحی مذاکرات میں شرکت کے لئے روانہ ہونے سے قبل یو این آئی سے بات چیت میں امید ظاہر کی کہ موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی عالمی کانفرنس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہندستان کا کردار انتہائی مثبت ہے اور وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو تیار ہے ۔ ہندستان نے کاربن کے اخراج میں کمی کے جس ہدف کا اعلان کیا ہے وہ کافی بڑا ہے اور اس سے ہندستان کی ذمہ داری ادا ہو رہی ہے ۔جنگلات و ماحولیات کے وزیر نے کہا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درپیش مسئلہ میں ہندستان کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن وہ اس کے حل میں بڑا پارٹنر بننے کو تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو اپنی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے کاربن کے اخراج میں کمی کے اپنے اہداف کو پورا کرنا ہوگا۔ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ وقت وقت پر جو باتیں ہوئی ہیں اور ان میں جن پر اتفاق ہوا ہے وہ اب پیرس میں ابھر کر سامنے آنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ماحولیات پر پڑ رہے اثر اور تباہی کے واقعات سے سبھی کو صورت حال کی سنگینی کا احساس ہو رہا ہے اور انہیں امید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سمیت تمام بڑے ملک اپنا تعاون پیش کریں گے ۔ مسٹر جاوڈیکر نے کہا کہ عالمی حدت سے ہونے والے خطرے مہلک مرض ایچ آئی وی ایڈز سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ غیر معمولی مسئلہ ہے اس لئے اس سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے اور بڑی پہل کرنی ہوگی۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہو گی۔اس کے لئے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لئے آگے آنا ہوگا اور انہیں نہ صرف مالی مدد کرنی ہوگی بلکہ ضروری ٹیکنالوجی بھی دینی ہوگی۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کوپیچیدہ بنانے کے بجائے سب کو مل کر اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت الزام تراشی کا نہیں ہے اور سب کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کے مطابق قدم اٹھانے ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہندستان نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لئے کافی قدم اٹھائے ہیں اور اس سمت میں ابھی آگے اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہندستان نے شمسی توانائی جیسی قابل تجدید توانائی کے متبادل کا راستہ دکھایا ہے اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی تجویز ہے جس میں اس نے 100 ممالک کا ایک کلب بنا کر شمسی توانائی میں اضافہ کرنے کا عہد کیا ہے ۔مسٹر جاوڈیکر نے کہا کہ اسی طرح کے کچھ اور قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے جیسے کہ کاربن کے اخراج میں کمی کے اپنے مقاصد کو پورا کرنے والے ممالک کی ستائش کی جا سکتی ہے ۔ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ایک نظام بنائے جانے کی بھی انہوں نے وکالت کی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک اس سلسلے میں متحد ہیں اور وہ مل کر اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین بھی اس معاملے پر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ہے ۔
بابری مسجد کا ملبہ کب تک پڑا رہے گا؟
06دسمبر (فکروخبر/ذرائع)بابری مسجد چھ دسمبر سنہ 1992 کو منہدم کر دی گئی ۔مدراس ہائی کورٹ نے تمل ناڈو کی ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ برس سے کسی بھی تنظیم کو چھ دسبر کے روز بابری مسجد یا رام مندر کی حمایت یا مخالفت میں کسی طرح کے جلسے جلوس اور مظاہرے کی اجازت نہ دے۔عدالت عالیہ نے اپنے مشاہدے میں کہا ہے کہ اس طرح کے احتجاجوں اور مظاہروں سے روزمرہ کی زندگی میں رخنہ پڑتا ہے اوراس سیسرکاری اور غیر سرکاری وسائل بھی ضائع ہوتے ہیں۔
بابری مسجد مقدمے میں اڈوانی سمیت 20 افراد کو نوٹس
بابری مسجد چھ دسمبر سنہ 1992 کو منہدم کی گئی تھی۔ اس کی بعد ہر برس اس روز بابری مسجد کے حمایتی ’یوم سیاہ‘ مناتے رہے ہیں اور اس کی تعمیر نو کے لیے جلسے جلوس اور مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح رام مندر کیحامی بابری مسجد کیمقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے ہر برس مظاہرے کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد 26 جنوری سنہ 1950 کو آزاد بھارت نے ایک نیا آئین اختیارکیا۔ بھارت کو ایک عوامی جمہوری قرار دیا گیا۔
آئین کے نفاذ سے محض ایک مہینے قبل ایودھیا کے کچھ سادھوؤں نے شہر کی 400 برس پرانی بابری مسجد کے منبر پر ہندوؤں کے دیوتا بھگوان رام کی مورتی رکھ دی تھی۔ ریاستی حکومت اور مقامی اتظامیہ نے بجائے مورتی ہٹانے کے مسجد پر تالہ لگا دیا۔
ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد چھ دسمبر سنہ 1992 کو اترپردیش کے شہر ایودھیا میں موجود تھی
بھارت کے آئین میں ہر شخص کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ 15 اگست سنہ 1947 کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اسے جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے گا۔ لیکن بابری مسجد کو اس سیالگ رکھا گیا۔ یعنی اسے ایک متنازع عبادت گاہ تسلیم کیا گیا جس کا فیصلہ ہونا تھا کہ اس پرکس کا حق ہے۔
بعض ہندوؤں کا دعوی ہیکہ بھگوان رام اسی مقام پرپیدا ہوئے تھے جہاں بابری مسجد بنی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق وہاں ایک مندرتھا جسے بابر نے منہدم کرا کر بابری مسجد بنوا دی۔500 برس پہلے وہاں کیا تھا اور کیا نہیں تھایہ تو ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے100 برس سے بابری مسجد بھارت میں مذہب اور نفرت کی سیاست کا محور بنی رہی ہے۔
بابری مسجد ڈھائی جا چکی ہے لیکن اس کے ملبے پر نفرت کی سیاست اب بھی جاری ہے۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ہندوؤں اورمسلمانوں کیدرمیان کسی اور ایشو نے ایسی خلیج اور اختلاف نہیں پیدا کیا جیسا بابری ۔ رام مندر کیتنازع نے کیا ہے۔ بھارتی ریپبلک بابری کے ملبے کا ابھی تک یر غمال بنا ہوا ہے۔
بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا تنازع بہت پرانا ہے جس پر آج تک سیاست ہو رہی ہے
بھارتی خطے میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب ایک مذہبی گروپ کی عبادت گاہ کو دوسری مذہبی گروپ کے ہجوم نے زمین دوز کر دیا ہو۔ ماضی میں مقامی حکمراں ایک دوسرے کے خطے پر حملوں میں عبادت گاہوں کو بھی تباہ کرتے تھے۔
بودھ مت کیزوال کیبعد ہندو راجاؤں نے بودھ بھکشوؤوں اوران کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سے آنے والے مسلم حلہ آور اور لٹیرے لوٹ ماراور غارت گری کے ساتھ ساتھ ہندو مندروں کو بھی اکثر نشانہ بناتے تھے۔
تقسیم ہند کیوقت صدیوں سے ایک ساتھ رہنیوالے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی ہزاروں عبادت گاہیں ہی نہیں تباہ کی تھیں، انھوں نے قتل وغارت گری کی ایسی خونریز تاریخ مرتب کی تھی کہ انسانیت اپنےآپ سے شرمسار رہے گی۔
جمہوری بھارت میں بابری مسجد کا انہدام ریاست کی پستی اور لاقانونیت کی فتح کی عکاس ہے۔ جس ریپبلک نے 1947 کی مذہبی جنونیت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے وہ ریپبلک ہجومی سیاست کیسامنے بے بس نظر آیا۔ یہ بھارتی آئیڈیل، بھارت کی تہذیبی اورانسانی اقدار اور آئین کی شکست تھی۔مدراس ہائی کورٹ نے اپنے مشاہدے میں کہا ہے کہ اس طرح کے احتجاجوں اور مظاہروں سے روزمرہ کی زندگی میں رخنہ پڑتا ہےبابری مسجدگذشتہ ایک طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں مذہبی نفرت اور سیاست کا محور بنی ہوئی ہے۔ بھارت ایک کھلا اور آئینی معاشرہ ہے۔ ملک کا آئین بھارت کیعوام کے اجتما?عی شعور کا عکاس ہے۔ موجودہ دور میں مذاہب پر کسی گروپ تنظیم یا مخصوص فرقے کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ تروپتی، تاج محل اور ایودھیا بلا تفریق مذہب و ملت ہر بھارتی کی میراث ہیں۔صدیوں کی کشمکش کے بعد بھارت ایک بہتر مستقبل کی دہلیز پر ہے۔ سوا ارب انسان ماضی کے کھنڈروں کے کب تک یر غمال بنیرہیں گے؟ ان کھنڈروں کے ملبوں اور ان سے وابستہ مذہب کی سیاست کو اب بہت گہرائی میں دفن کردینے کی ضرورت ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کیسیکولر عوام اجتماعی طور پر بابری مسجد کے متنازع مقام کو کسی حتمی فیصلے کے لیے ریاست کے حوالیکر دیں اور ریاست سے یہ عزم لیں کہ مستقبل میں اس ملک میں مذہب کے نام پر پھر کبھی کوئی سیاست نہیں ہو گی اور مذہب کینام پرانسانوں کو ذبح نہیں کیا جائے گا۔
Share this post
