فکروخبر کے نمائندے جیسے ہی جائے واردات پر پہنچتے ہیں تو یہاں کا ایک عجیب منظر تھا، پولس ہجوم پر بھڑ ک رہے تھے، اور ایک حواس باختہ رکشہ ڈرائیور ایک کنارے کھڑے ہوکر اس منظر کو عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہا تھا، کچھ لوگ اہم شاہراہ سے گذررہی بڑی بڑی سواریوں کو اشارے سے روکتے ہوئے حادثے کے پیش آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ اور ان کو خبر بھی نہیں کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے پیچھے کئی لوگ پریشان ہیں۔حقیقت کیا ہے؟ مشتعل ہجوم کا الزام تھا کہ گوڈ رکشہ کے ڈرائیور نے جان بوجھ کر ایک کار سے ٹکرایا تھامگر! کارکو دیکھ کر کہیں سے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی بڑا حادثہ پیش آیا ہے..فکروخبر کے نمائندے نے موقع واردات پر موجود کچھ لوگوں سے پوچھا کہ کسی کو چوٹ لگی ، جواب ملا نہیں۔ پھر پوچھا گیا کہ ، آخر اتنا ہجوم کیوں جمع ہوا ہے؟ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا....
کچھ اور لوگوں سے فکروخبر کے نمائندے نے پوچھنے کی کوشش کی تو... سنئے ..جواب کیا ملا...؟
کار اپنے راستے سے گذررہی تھی اور رکشہ والا موڑ لے رہا تھا، مگر جگہ نہ ہونے کے باوجود رکشہ والے نے خوب کوشش کی کہ بچا جائے مگر تھوڑی سی لکیریں کار پرآگئی۔اس چھوٹے سے معاملہ کو لے کر اتنا واویلا مچا اور ہمارے نوجوان جمع ہوگئے کہ رکشہ ڈرائیور جو بالمقابل ذات سے تعلق رکھتا ہے گھبرا کر پولس کو فون کربیٹھادراصل ممکنہ حملے سے خود کو محفوظ کرنا چاہتا تھا۔
دو فرقوں کے مابین کشیدگی اور دوریاں پیدا کرنے والا حالیہ واقعہ جو اسرکیری میں پیش آیا اگر یہاں بغیر طرفداری کے بات کی جائے تو بھول کس کی تھی آپ خود اندازہ لگائیں ،اس حادثے کے بعدشہر بھر میں کشیدگی کے آثار پائے جارہے تھے اور فوری پولس نے پیس میٹنگ منعقد کی۔
مگر پیس میٹنگ کے کچھ ہی دیرپہلے نوائط کالونی میں ایک سڑک حادثہ پیش آیا۔اس سے مشتعل کچھ نوجوانوں نے کار کے ڈرائیور پر حملہ کردیا جو کنداپور سے تعلق رکھتا تھا۔یکے بعد دیگرے پیش آئے یہ ایسے واقعات ہیں جس میں ہم کہیں بھی حزبِ مخالف پر الزام نہیں لگا سکتے کہ فرقہ پرست عناصر زبردستی پر امن ماحول میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررہے ۔میری سیدھی بات سے شایدکسی کو تکلیف ہو مگر آپ خود ضمیر کے آوازپر کان لگائیں تو یہ سرگوشی ضرور سنیں گے ۔
حادثے کیا صرف ہمارے ہی شہر میں پیش آتے ہیں؟؟، کیا ہماری کار کبھی کنداپور سے نہیں گذرے گی؟؟ ہم سوشیل میڈیاWhatsapp کا استعمال قوم کے فلاح کے لیے کررہے ہیں یا پھر بے وجہ افواہوں کو پھیلاکر قوم کو تباہی کے دہانے لے جارہے ہیں ؟؟
ماننے والوں کو ماننا ہے کہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں فسادات زیادہ ہوتے ہیں؟؟ مگر ہمارے شہر کی باگ ڈور تو ایک آزاد رکن اسمبلی کے ہاتھوں ہے..منگلور و مضافات میں عید سے پہلے اور عید کے بعد اقلیتوں پر حملے کی خبروں سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔شرپسند عناصر کسی نہ کسی بہانے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے چکر میں ہیں، اور ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا کر ایسے عناصر کو موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ ایسے مواقع کابھرپور فائدہ اُٹھائیں..یہ سوچے بغیر کہ اس پیغام کا اثر منفی ہوگایا مثبت ،فارورڈیڈ(Farwarded) پیغامات کو ہم ایک دوسرے کو بھیجنے میں رتی برابر دیر نہیں کرتے...
پولس کی جانب سے ماحول کو پرامن بنانے کی اپیل کی جارہی ہے مگر ہم ہیں کہ ہر چھوٹے واقعہ پر ہجوم اکھٹا کرکے تماشہ کھڑا کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے منظر کو دیکھنے والے یہ فیصلہ لینے میں رتی برابر دیر نہیں کرتے کہ یہاں کوئی بڑاحادثہ پیش آیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بے مطلب تماشائیوں کی وجہ سے کشیدگی کوبڑھاوا ملتا ہے اور پھر حالات بے قابو ہوجاتے ہیں، ایسے میں ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی بھی حادثے کی خبر ملنے کے بعد تصدیق کرنے سے پہلے اس پیغام کو آگے بھیجنے اور جائے حادثے پر پہنچنے سے پرہیزکرے ۔ مشکل ہے مگر قوم کی فلاح کے لیے اس بات پر ایک بار ضرور غور کرنا ہوگا۔
![]()
Share this post
