گذِشتہ دنوں اسمبلی اجلاس میں گئو کشی بل پیش کرنے پر اپوزیشن کی جانب سے اس کی پروزور مخالفت کی گئی۔ اپوزیشن نے اس بل کو لے کر کئی طرح کے خدشات کا بھی اظہار کیا اور بی پی پر سیاسی مفاد حاصل کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ لیکن حکومت بھلا وہ کس کی بات سننے والی تھی۔ وہ پہلے سے اس بل کی منظوری کی پوری تیاری کرچکی تھی۔ نعرہ بازی کے دوران ہی بل منظور کیا گیا اور اپوزیشن کے رہنما اپنے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ ہوگئے۔
قانون ساز اسمبلی میں بھی ہوا پرزور ہنگامہ
اسمبلی میں بل پاس ہوتے ہی قانون ساز اسمبلی سے پاس کرکے اسے جلد گورنر کے پاس بھیجے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اسمبلی اجلاس میں مخالفت کے باوجود جلد بازی میں یہ بل قانون سازا سمبلی میں پیش کیا گیا جہاں اتنا ہنگامہ ہوا جس سے جمہوریت شرمسار ہوگئی۔ ڈپٹی اسپیکرکو کرسی سے بے دخل کردیا گیا اور ہنگامہ آرائی کے دوران اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ بی جے نے اس ہنگامہ کے بعدبھی خاموشی اختیار نہیں کی اور اس پر آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا۔
آرڈیننس کا کیا ہے مطلب؟
حکومت کو اس بات کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو فوری لاگو کرنے کے لیے آر ڈیننس کا سہارا لے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کے بعد اسے نافذ کرنے کے لیے گورنر کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ حکومت کو قانون ساز اسمبلی سے اس کی منظوری چھ ماہ تک حاصل کرنی ضروری ہوتی ہے، اگر وہ اس میں ناکام رہی تو آرڈیننس کے ذریعہ نافذ قانون کلعدم ہوجاتا ہے۔ حکومت چاہے تو اس پر دوبارہ آرڈیننس لاسکتی ہے۔
یہ قانون کس پر ہوگا زیادہ اثر انداز؟
اس آرڈیننس کے ذریعہ لائے جانے والے قانون کا اثر مسلمانوں پر کوئی خاص پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ کرناٹکا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً تیرہ فیصد ہے۔ اس قانون کا سیدھا اثر کسانوں پر پڑے گا۔ پہلے کسان مرکزی حکومت کی جانب سے منطور کیے گئے تین بلوں سے پریشان ہے، اب گئو کشی قانون ان پر اضافی بوجھ ڈالے گا۔ اب تک تو تیرہ سال سے زائد عمر کی گایوں کو ذبح کرنے کی اجازت دی تھی۔ قانون نافذ ہونے کے بعد گایوں کے ذبیحہ پر مکمل پابندی عائد کی گئی جس کا مطلب صاف ہے کہ اب دودھ بند کردینی والی گایوں کو بھی کسانوں کو چارہ ڈالنا ہوگا اور گھر کے ایک فرد کی طرح اس کے تمام تر لوازمات پورے کرنے ہوگی۔ حکومت نے گئو شالوں کے قیام کے بارے میں بھی اشارہ دیا ہے لیکن ملک کی کئی ریاستوں کے گئو شالوں کی تصاویر اور رونگٹے کھڑی کردینے والی رپورٹیں ہی ان گئو شالوں کی حقیقت بیان کررہی ہے۔ اب یہ بات کہاں تک درست ثابت ہوگی کہ کرناٹک میں گئو شالاؤں کا قیام کسانوں کا بوجھ ہلکا کرے گی۔
Share this post
