جواں سال عالمِ دین حافظ مولوی شماس کے انتقال پر جامع مسجد بھٹکل میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد

قرآن کریم سے شغف، والدین کی اطاعت وخدمت اور قرآنی تعلیمات کو فروغ دینا اس کی زندگی کا اہم جزو تھا : مقررین کا اظہارِ خیال 

بھٹکل 23؍ مارچ 2019(فکروخبر نیوز ) جواں سال عالمِ دین حافظ مولوی جلال الدین شماس ابن اعجاز صاحب گولٹے کے انتقال پر پورا بھٹکل سوگوار ہے۔ ان کی وفات پر تعزیتی اجلاس کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ بروز جمعرات بعد عشاء قاضیا مسجد میں تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا ، جس کے بعد جمعہ کے بعد عصر مشما مسجد میں تعزیتی جلسہ رکھا گیا تھا ، آج دوپہر جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں بھی تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا۔

کل بعد عشاء جمعیت الحفاظ بھٹکل کی جانب سے منعقد کیے جانے والے تعزیتی اجلاس نے جامع مسجد بھٹکل کی تاریخ میں ایک سنہرے دور کا اضافہ کیا۔ ان کے محاسن کا تذکرہ نکرکے انہیں اپنی عملی زندگی میں اپنانے کی مقررین نے نصیحت کی۔ 
مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے مرحوم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اس کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا اور کہا کہ مرحوم کا قرآن کریم سے شغف اور اس سے وابستگی اس بات کا ثبوت پیش کررہی ہے کہ قرآن سے اپنے تعلق کی وجہ سے انسان کی موت کے بعد بھی اس کے محاسن کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مرحوم کاکام یا تو قرآن پڑھنا ، قرآن سکھانایا پھر اس کی تعلیمات کو عام کرنا تھا۔ مولانا نے اس کی گھریلو زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ والدین کی خدمت کا جو جذبہ اس کے اندر بھرا ہوا تھا ہم اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ مولانا نے خصوصاً نوجوانوں کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے والدین اور عمررسیدہ افراد کی خدمت کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہونا چاہیے۔ آج ہماری حالت یہ ہوگئی کہ ہم گھر کے کام کو کام نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس سلسلہ میں جتنی کوتاہیاں ہورہی ہیں اللہ کی پناہ ، بسا اوقات گھر کے ضروری کام کو بھی ہم اس طور پر نظر انداز کردیتے ہیں کہ گویا وہ کام ہی نہیں ہے۔ گھر والوں میں سے کسی کو علاج ومعالجہ کے لیے لے جانا ہو تب بھی ہمارے پاس وقت نہ ہونے کی بات کہہ کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔لہذا ہمیں ان باتوں کا طرف توجہ دیتے ہوئے اپنے زندگی اس کے نقشِ قدم پر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ 
بانی وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے کہا کہ مولوی شماس سے زیادہ اس کے والدین قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہو ں نے اپنا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود اسے دینی تعلیم کے لیے وقف کردیا۔ وہ چاہتے تو اسے دنیا کی اچھی سی اچھی تعلیم بھی دلاسکتے تھے لیکن انہوں نے ان سب پر دینی تعلیم کو ترجیح دی اور اس کے ذریعہ سے اسے جو عزت ملی وہ اپنی زندگی ہی میں دیکھ رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ مولوی شماس کی زندگی ہمارے سامنے ہے ۔ آج اس کی وفات ہزاروں شماس کے پیدا ہونے کا سبب اس وجہ سے بھی بن سکتی ہے کہ اس کے زندگی میں وہ اوصاف سامنے نہیں آسکتے جو اس کی وفات کے بعد سامنے آرہے ہیں ۔ اکیڈمی کے اسلامیات امتحانات کے پرچوں کی چیکنگ کے سلسلہ میں مولوی شماس نے اکیڈمی کو بڑا تعاون دیا ۔ جب اس طرح کے مواقع آتے ، اس نے خود حاضر ہوکر اپنے آپ کو اس کے لیے فارغ کردیا اور دیگر احباب کے مقابلہ میں وہ اپنا کافی وقت اس کے لیے وقف کیا کرتا تھا ۔ 

امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبدالعلیم صاحب ندوی نے کہاکہ مولوی شماس نے موبائل کا صحیح استعمال کرکے نوجوانوں کو یہ بہترین پیغام دیا کہ اس کے غلط استعمال سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں۔ اسی طرح فجر کی نماز میں اپنی ساتھیوں او رپڑوسیوں کو جگانا اس کا معمول تھا۔ خود مجھے کئی اس کے ساتھیوں نے فون کرکے اطلاع دی کہ دو سال سے مولوی شماس فجر کی نماز کے لیے انہیں فون کرکے جگانے کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ 
جمعےۃ الحفاظ بھٹکل کے صدر مولانا نعمت اللہ صاحب ندوی نے کہا کہ اس نوجوان جس قدر اللہ کا خوف پایاجاتا تھا اسکی مثالیں بہت مشکل سے مل سکتی ہیں۔ جتنی بھی چیزیں یہاں بیان کی گئیں ہے اس کا تجزیہ کرنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم سے شغف کے ساتھ تقویٰ کی صفت اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ ہمیشہ اپنے ہر کام سے قبل اپنے بڑوں سے ضرور مشورہ لیا کرتا تھا۔ 
قاضی مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی اور نائب قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا عبدالرب ندوی نے بھی مرحوم کے تعلق سے اپنے مفید خیالات کااظہار کرتے ہوئے اس کے محاسن کو ہماری زندگیوں میں اپنانے کی نصیحت کی۔ 
لرن قرآن کے ذمہ مولانا عبداللہ شریح کوبٹے ندوی نے ادارہ سے اس کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے اپنی مختصر سی زندگی میں یہی پیغام دیا کہ جو لوگ مشغول ہوتے ہیں وہی کام کرکے دنیا کی سامنے پیش کرتے ہیں۔ جب بھی مولوی شماس کو وقت ملتا تو اپنا ممکن بھر تعاون ادارہ کے لیے پیش کیا کرتا تھا۔ ان کی زندگی کے بہت سارے پہلوؤں میں یہ پہلو ہی اس کی مغفرت کے لیے کافی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے اسی سے زائد ممالک میں اس کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ 
ادارہ ادب اطفال کے ذمہ دار مولانا عبداللہ دامدا ابو نے ادارہ ادب اطفال اور ماہنامہ پھول کے لیے اس کی کوششیں عوام کے سامنے رکھیں۔ ان کی خدمات ادارہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ اپنی دلی جذبات سے کام کرنا اس کا اہم وصف تھا۔ کسی بھی کام کی ذمہ داری جب سونپی جاتی تو اس کے اختتام کے بغیر اسے چین نہیں آتا تھا، ادارہ کے ایسے کام کو جس کو ہرایک آسانی کے ساتھ نہیں کرسکتا ، ایسے کاموں میں مولوی شماس کا تعاون ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ 
واضح رہے کہ اس تعزیتی اجلاس میں دیگر حضرات نے بھی مرحوم کے تعلق سے اپنے مفید خیالات کا اظہار کیا۔ مختلف اداروں اور اسپورٹس سینٹروں کی جانب سے تعزیتی قراردادیں بھی پیش کی گئیں ، ان کے استاد مولانا سمعان خلیفہ ندوی کی جانب سے مرتب کردہ مرثیہ مولوی احمد اثال نے پیش کیا۔ نظامت کے فرائض استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا وصی اللہ ندوی نے بحسنِ خوبی انجام دئیے۔ اس دوران مرحوم کے مختلف محاسن کا تذکرہ بھی انہوں نے کیا۔ اس موقع پر اسٹیج پر قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا محترم محمد اقبال ملا ندوی ، مرحوم کے والد ماجد جناب اعجاز گولٹے ،جنرل سکریٹری جماعت المسلمین بھٹکل مولانا طلحہ رکن الدین ندوی اور دیگر موجود تھے۔ 

Share this post

Loading...