فکروخبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم ندوی کے والدِ ماجد کے انتقال پر تعزیتی جلسہ ، مرحوم کی زندگی ہم نہ دیکھتے توان کی صفات پر یقین کرنا مشکل تھا : مقررین کا اظہارِ خیال

بھٹکل 15 اگست 2024 (فکروخبرنیوز) فکرو خبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم ندوی کے والد ماجد کے انتقال پرملال پر تعزیتی نشست مسجد عمیر میں بعد عشاء متصلاً منعقد کی گئی۔  نشست میں مرحوم کی بہت سی صفات بیان کی گئیں جنہیں سن کر اندازہ ہوا کہ انہیں دین سے کس درجہ لگاؤ اور محبت تھی اوروہ اس کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کے لیے بھی تیار تھے۔ مقررین نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اگرہم ان کو دیکھتے تو شاید ان باتوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔

ان کے فرزندِ ارجمند اور فکروخبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا سید ہاشم نظام ندوی نے بڑی تفصیل سے اپنے والدِ ماجد کی خوبیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ اخلاق پر زور دیا ہے اوروہ ہمیشہ بتاتے تھے کہ اپنے اخلاق بلند کرنے چاہیے اور ہمارے اخلاق ایسے ہونے چاہیے کہ کسی کی انگلی اس طرف نہ اٹھیں۔ مولانا نے ہم اندازہ نہیں لگاسکتے کہ ان کی داڑھی رکھنے کا واقعہ پوری زندگی کے بدلنے کا ذریعہ بنا اور وہ ہمیشہ اس سنت کو رکھنے پر زور دیا کرتے اور کہتے کہ داڑھی ایک تو گناہوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے اور دوسرا فائدہ داڑھی کہ یہ واحد علامت ہے جو قبر میں ہمارے دنیا میں نیک ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مولانا نے ان کی روشن زندگی کے کئی اوراق الٹنے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کی میں نے پچاس بہاریں دیکھیں اور میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کی زندگی کا کونسا ورق آپ کے سامنے رکھوں۔ مولانا نے مزید کہا کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا لیکن وہ تمام کام جن کےذریعہ سے دعوتی فریضہ میں معاون بنتے ہیں اس کی قدر کرتے اور اس میں بنفسِ نفیس شریک ہوتے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ وہ پوری زندگی غیبت سے دور رہے۔ مولانا نے فکروخبر کے آغاز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے فکروخبرشروع کرنے کا فیصلہ کیا تو والدِ ماجد کے سامنے پورا خاکہ رکھا جس پر انہوں نے بہت سی دعائیں دیں اور ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اس کو صرف خبروں کا نہیں بلکہ دعوت کا چینل بناؤ۔ مولانا نے تحفیظ القرآن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کا آغاز ہوا تواس کے لیے مجھے(مولانا ہاشم ندوی) پہلا شاگرد بنایا ، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دین اور علم کے کاموں کی ترویج کے لیے کس قدر فکر مند تھے۔ مولانا نے مرحوم کی تجارتی زندگی کے واقعات بھی بڑی تفصیل سے بیان کیے اور کہا کہ وہ دوسروں کو فایدہ پہنچانے کی نیت سے تجارت کرتے تھے، زیادہ تولنا ، خریدار کی ضرورت کا خیال رکھنا ، انہیں ادھار دینا، مولانا نے یہاں تک کہا کہ بعض دفعی اپنے پاس نہ ہونے کے باوجود دوسروں سے لے کر دیا۔ مولانا نے عفو در گذر ، دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنے اور بچوں کی تربیت کی کئی ایک واقعات بھی بیان کیے۔

مرحوم کے بڑے فرزند جناب سید محسن صاحب نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی دینی خطوط پر تربیت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، آج بچے دعائیں شبینہ مکاتب میں جاکر سیکھ لیتے ہیں لیکن ہمارے بچپن میں ہم کو تمام دعائیں والدِ ماجد ہی نے سکھائیں اور نہ صرف سکھائیں بلکہ اس کے پڑھنے کا معمول بھی بنایا۔ ہمارے بچپن میں کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ’’ شکریہ‘‘ کہتے لیکن ہمارے والدِ ماجد نے اس وقت سے ہی ہمیں جزاک اللہ کہنے کی عادت ڈالیں۔ وہ ہمیشہ فجر کی نماز کے لیے وقت سے پہلے بیدار ہوتے اور فجر بعد اپنے معمولات کرتے اور ہمیں بھی تلاوت وغیرہ کا اہتمام کرنے کی تاکید کرتے۔ فجر بعد سونے کو منع کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے والدِماجد کی کئی ایک خوبیوں کو واقعات کی روشنی میں حاضرین کے سامنے رکھا۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کے روحِ رواں اور مشہور عالمِ دین مولانا محمد الیاس صاحب نے کہا کہ جناب نظام صاحب کے انتقال کے بعد ان کی جو خوبیاں ہمارے سامنے آرہی ہیں اسی سے ان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم ایسے شخص کے درمیان رہے جو صفات کا مجموعہ تھا۔ مولانا نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اچھی زندگی مانگنے سے نہیں بلکہ اپنانے سے آتی ہے اور یہ بات مرحوم میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ وہ اپنے دور کے امیر گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن اپنی زندگی غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ گذری ، آج یہ باتیں کہنی آسان ہیں لیکن اس پر عمل مشکل ہے۔ خاندانی شرافت اور مال ودولت کے باوجود دین کی تبلیغ کے لیے ان کی کوششیں قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہیں۔

مرحوم کے نواسے استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا عبد الاحد ندوی نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دعوت و تبلیغ کی محنت اس دور میں کی جب شہر میں دعوت و تبلیغ کی محنت نہ کہ برابر تھی ، شروعاتی دور میں جب حالات ناسازگار تھے اس وقت انہوں نے یہ محنت کی اور آج اس کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔، ان کا شمار ان چنیدہ لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس محنت کو ہر ہر علاقے میں پہنچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے دعوت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھی بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے سخاوت ، ہمدردی ، دوسروں کی ضروریات خیال رکھنے اور دیگر کئی خوبیوں نمبروار گنائیں۔

مرحوم کے ایک اور نواسے اور نائب قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا مفتی عبد النور ندوی نے ان کے دنیا سے بے رغبتی ، لوگوں کی خدمت ، تواضع اور انکساری وغیرہ کی صفات واقعات کی روشنی میں بیان کیں اور کہا کہ ان کو دیکھنے سے ہی ان میں تواضع نظر آتا تھا اور ان کے پاس بیٹھنے والے اس چیز کو محسوس کرتے تھے، مولانا نے ان کی زندگی کی اہم تبدیلی کا واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم اندازہ نہیں لگاسکتے کہ ان کے داڑھی رکھنے کے واقعہ نے ان کی پوری زندگی بدل ڈالی اور عمر بھر وہ مولانا ایوب صاحب ندوی کے والدِ ماجد کا بڑے جذباتی انداز میں تذکرہ کرتے رہے اورعمربھروہ ان کے محسن رہے۔

مرحوم کے پوتے مولانا سید احمد ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے دوران مرحوم کی کئی ایک خوبیاں بیان کیں اور انہیں عملی زندگی میں اپنانے پر زور دیا۔

مرحوم کے فرزند مولانا ہاشم ندوی کی رقت آمیز دعا پر یہ تعزیتی جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

Share this post

Loading...