جناب سعید دامودی کی وفات پر مولانا ابو الحسن علی اسلامک اکیڈمی کی جانب سے تعزیتی جلسہ کا انعقاد : سخاوت اور علم دوستی جیسے اوصاف پر مقررین نے کیا اظہار خیال

بھٹکل04؍ جنوری2021(فکروخبر نیوز) بھٹکل کی مشہور شخصیت اور کئی اداروں کو اپنی دل وجان سے چاہنے والے اور ان کے لیے ہر طرح کا تعاون پیش کرنے والے جناب سعید صاحب دامودی کی رحلت پر آج مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی جانب سے علی پبلک اسکول کے مولانا ریاض الرحمن رشادی ہال میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں علماء اور عمائدین نے شرکت کرتے ہوئے مرحوم کے وفات کو ایک سانحہ اور عظیم خسارہ قرار دیا۔ 
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بانی و جنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی مولانا محمد الیاس ندوی نے کہا کہ جیسے ہی مجھے ان کی وفات کی خبر ملی مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر سے ایک اور باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ ان کے ساتھ جس طرح کے تعلقات تھے وہ بیان نہیں کئے جاسکتے۔ مجھے وہ اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرا بھرپور تعاون کیا ۔ ہر موڑ پر ان کا ساتھ رہا اور مرحوم محتشم عبدالغنی صاحب اور جناب عبدالحمید دامودی صاحب کی طرح وہ بھی میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے ۔ گویا انہوں نے مجھے مالی تعاون سے یکسو کردیا۔ مولانا نے ان کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی ایماء اور حکم پر اکیڈمی کا یہ پروجیکٹ شروع کیا تو ہماری نظرچنیدہ افراد پر پڑی جن میں مرحوم جناب سعید صاحب دامودی صاحب پیش پیش ہیں۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ انہوں نے ہر موڑ پر ساتھ دیا۔ مولانا نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ساتھ ان کے تعاون کی کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کی سراہنا کی۔ ان کی اہم صفات میں  کبھی کسی کی غیبت نہیں کرنا اور اہل اللہ کی صحبت اور بڑوں کے حکم کے آگے اپنے آپ کو جھکانے والی شخصیت تھی۔ 

مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے کہا کہ مرحوم جناب سعید صاحب دامودی کو مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی سے گہرا لگاؤ تھا۔ ان کی تحریروں کو بڑے شوق سے پڑھتے۔ ان کے پاس سچ کی فائلیں تھیں ، پھر صدق نکلا اور صدقِ جدید نکلا تو ان کو بڑے اہتمام سے پڑھتے تھے اور ان کی زبان سے بہت مانوس تھے۔ اردو کی خدمات میں جہاں بہت سے افراد کا کی خدمات رہی ہیں اس فہرست میں جناب سعید دامودی صاحب کا بھی تذکرہ ضرور رہے گا۔ مولانا نے کہا کہ  جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے پہلے دن سے بڑی محبت تھی۔ انہوں نے اپنی پہلی آمدنی جامعہ اسلامیہ کو عطیہ کرکے اپنے تعلقات کا ثبوت پیش کیا۔ اور اپنی ذات سے اور اپنے متعلقین سے بھی وصول کرکے دیا کرتے تھے او ریہ سلسلہ آخر تک چلتا رہا۔
ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل جنا ب ماسٹر شفیع صاحب نے کہا کہ ان کی بڑی صفت یہ تھی کہ بڑٰوں کی بات مانے والے تھے۔ جو آج مفقود ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کے لیے ان کا بڑا تعاون رہا۔ ان کا علمی ذوق بڑا اچھا رہا اس زمانہ میں صدق کا وہ مطالعہ کیا کرتے تھے لیکن آج ہمارے پاس سب طرح کی سہولتیں ہونے کے باوجود وہ باتیں نہیں رہیں۔ 
مولانا شعیب صاحب ندوی نے کہا کہ اس عمر میں بھی وہ مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ دبئی کے قریبی سفر میں انہوں نے جہاں بہت سے لوگوں کے بارے میں حال چال پوچھا وہیں انہوں نے  تسبیح کی نماز پڑھنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ 
مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی نے کہا کہ اس کی بڑی خوبی یہ بھی رہی کہ یہ تلاوتِ قرآن پاک کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بعد فجر پانچ کلومیٹر چلا کرتے تھے۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دولت کے ذریعہ مساجد ، مدارس اور اسکولوں کی خدمت کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔ 
مولانا عبدالرب ندوی نے کہا کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں لگایا وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اور یہ چیز جناب سعید صاحب دامودی کے ساتھ لگی رہی۔ اپنے پاس جو کچھ تھا اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے۔ 
مرحوم کے بچپن کے ساتھ جناب عبدالحمید صاحب دامودی نے کہا کہ میرا اور ان کا تعلق تقریباً چھیاسی سال سے رہا اور کبھی میرے او ران کے درمیان اختلاف نہیں رہا۔ جب کبھی وہ کوئی چیز پیش کرتے میں قبول کرتا اور میں پیش کرتا تو وہ قبول کرتے ۔ انہو ں کہا کہ میرا اور ان کا ساتھ بچپن سے رہا ہے اور اب تک تھا۔ 
ان کے ساتھ ساتھ  صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا عبدالعلیم قاسمی،  سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا فاروق صاحب ندوی ، سابق استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد ایوب ندوی ،نائب قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا عبدالعظیم ندوی اور جنرل سکریٹری جماعت المسلمین بھٹکل مولانا طلحہ رکن الدین ندوی نےبھی مرحوم کے تعلق سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ مولانا ارشاد افریکہ ندوی کی دعا پر یہ اجلاس اختتام کو پہنچا۔ نظامت کے فرائض رفیق فکروخبر مولانا عبدالنور فکردے ندوی نے انجام دیئے۔ 

 

Share this post

Loading...