بھٹکل 11/ اکتوبر 2019 (فکروخبر نیوز) شہر بھٹکل کی ایک مشہور شخصیت جناب عبداللہ لنکا صاحب کے انتقال پرملال پر ایک تعزیتی جلسہ سلطانی مسجد کی انتظامیہ، ادارہ تربیتِ اخوان اور نوائط محفل کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد کیا گیا جس میں مختلف اداروں کے ذمہ داروں نے جناب عبداللہ صاحب لنکا سے اپنے تعلقات، دینی میدان میں ان کی فکریں، قوم کو ترقی میں ان کی کوششیں اور خصوصاً تعلیمی اور تربیتی میدان میں ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔
ادارہ تربیتِ اخوان کے فعال کارکن جناب قادر میراں پٹیل صاحب نے اپنی چالیس سالہ رفاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی میں سکونت اختیار کرنے کے دوران ان کی کئی خوبیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔۔ النوائط پرچہ نکالنے میں ان کا جو رول رہا ہے اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پروف کا کام جس طرح وہ خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے ہوئے وہ بیان سے باہر ہے۔ اس دور میں جب کہ چھپائی کی مشینیں موجود نہیں تھیں اس کے باوجود کاتبین کے انتظام کے ساتھ ساتھ پرچہ منظرِ عام پر آنے تک اس کی فکر میں رہنا یہ عبداللہ صاحب ہی کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ تربیتِ اخوان اور اسلامک ویلفیر سوسائٹی میں بھی ان کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ویلفیر میں پہلے درجہ کے نہ سہی دوسرے درجہ کےبانیان میں ان کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ ادارہ کی ترقی کی فکر کے ساتھ وہاں کے عملہ کی بھی فکرکرنا حتی کہ ان کے گھروالوں کی فکر، ان کے اخراجات کے بارے میں کوششیں اور انہیں پورا کرنے میں اپنا حتی المقدور تعاون یہ عبداللہ صاحب کے وہ اوصاف ہیں جو ہر ایک میں پائے نہیں جاتے۔
مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے کہا کہ جس میدان میں ہم لوگ کام کریں مرحوم عبداللہ صاحب کے اوصاف ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اصل میں انسان وہی کام کرتا ہے جس کے اندر کام کرنے کا جذبہ ہو۔ مرحوم میں جس طرح کی صفات پائی جاتی تھی وہ ہمیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی ان کی طرح خدمت کرنے والے بن جائیں۔
استاد تفسیر جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد انصار خطیب ندوی مدنی نے کہا کہ اصل میں بہتر انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے نفع پہنچائیں۔ جناب عبداللہ لنکا صاحب میں جو خوبیاں اور اوصاف تھے وہ ہمیں اپنانے چاہیے۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ اوصاف ہوتے ہی ہیں لیکن وہ دوسروں میں اس وقت منتقل ہوجاتے ہیں جب انہیں ہم اپنی زندگی میں اختیار کرتے ہیں۔
مرحوم کے فرزند جناب غفران لنکا نے کہا کہ میرے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ تھے۔ جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی وہ انہوں نے پوری کی۔ ان کی ایک اصل خوبی یہ تھی کہ جتنی رقم مجھے وہ دیا کرتے تھے، تمام بیٹوں کو بھی اتنی ہی رقم عطا کرتے تھے۔ الا کہ قرض کے طور پر میں نے لی ہو۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ مجھے تجارت کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی تو انہو ں نے بلانک چیک مجھے عنایت کرتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم کی ضرورت ہو وہ لکھ لینا۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ بیٹے ہونے کی وجہ سے مجھے بلانک چیک نہیں دیا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس طرح کے چیک انہوں نے عنایت کیے تھے۔
ان کے علاوہ مولانا عبد العظیم صاحب ندوی ، جناب چڈوباپا اسماعیل صاحب، صدر مجلس اصلاح وتنظیم جناب سید ایس ایم پرویز صاحب، جناب عتیق الرحمن شاہ بندری، جناب نصیف خلیفہ اور دیگر نے مرحوم کے تعلق سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اوصاف بیان کیے۔ نظامت کے فرائض مولانا زبیر صاحب ندوی نے انجام دئیے اس دوران انہوں نے مرحوم کی کئی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔ دعائیہ کلمات پر یہ تعزیتی جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
Share this post
