جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں مجمع الامام الشافعی العالمی کے دوسرے تین روزہ سمینار کا آغاز

 کنداپور 11/ جنوری 2020(فکروخبر نیوز)  مجمع الامام الشافعی العالمی کے دوسرے تین روز سمینار کا آغاز کل بعد نمازِ مغرب جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں ہوا جس میں جنوبی ہند کی مختلف ریاستوں کے شوافع علماء ومفتیان کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس کی افتتاحی نشست میں نامور علماء نے شرکت کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کی اور اس کام کی سراہنا کی۔ یاد رہے کہ اس کا پہلا سمینار جامعہ عربیہ تلوجہ نیو ممبئی میں گذشتہ سال فروری میں منعقد کیا گیا تھا۔ 
    سمینار کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے استاد حدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری نے کہا کہ مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور امت اس کام سے کبھی گھبرائی نہیں بلکہ اس سے نکلنے کے لیے تدبیریں کرتی رہیں ہیں۔ جب بھی کوئی نیا مسئلہ پیش آتا ہے تو علماء اس کے لیے آگے آتے ہیں اور شریعت کی روشنی میں اس کاحل پیش کرتے ہیں۔ لہذا ہماری ان کوششوں کا مقصد ہی یہی ہونا چاہیے کہ اس سے لوگ استفادہ کریں۔ مولانا نے کہا کہ فقہاء نے اس کو بڑی محنت کے ساتھ سنوارا اور مرتب کیا ہے، اصل میں فقہ کے معنی قرآن وحدیث کے رہنما اصول کو برتنے کا نام ہے۔ اس طریقہئ کار کو سمجھنے کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لیے اللہ نے ہمیں نعمتیں بھی دی ہیں۔ جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
استاد فقہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے موجودوہ ملکی حالات کے تناظر میں کہا کہ ہمیں سب سے پہلے نئی نسل کے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ عوام الناس کو قرآن سے جوڑیں۔ مولانا نے کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم سے جوڑنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھنے اور غوروتدبر سے ایمان مضبوط ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد ہم لوگ کہہ سکتے ہیں حالات کیسے بھی ہوں لیکن عوام ایمان کی بقاء کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گی۔ مولانا نے برادرانِ وطن میں بھی توحید کا پیغام پہنچانے اور اس کے لیے کوششیں کرنے پر زورد یا۔ 
جامعہ حسینہ عربیہ شریوردھن کے مہتمم مولانا امان اللہ بروڈ نے کہا کہ اس پورے خطہ میں شوافع مسلک کی ایک بڑی آبادی مقیم ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے علماء نے نئے پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں بہت کم تحقیقی کام کیا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ اب ہمارے پاس نئے مسائل کے موضوعات سامنے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس میں کوئی جلد بازی سے کام نہیں ہونا چاہیے اور اس کام کو دور اندیشی و دور بینی سے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 
مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے شوافع مسلک پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فقہ شافعی بہت ساری خصوصیات کی حامل ہیں جس میں بنیادی طور پر یہ بات ہے کہ چونکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا دور دو مسالک کے اماموں کا بعد کا ہے اور جب آدمی کے سامنے کوئی چیزیں رہتی ہیں تواس کے لیے تنقیہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ لہذا مکہ کا مکتبہئ قرآن، مدینہ منورہ کا مکتبہئ حدیث اور عراق کے اہلِ الرائے کا نچوڑ کا جامع فقہ شافعی ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اس فقہ پر اعتماد ہونا چاہیے اور یہ بات ہمیشہ ہمارے مدنظر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے او راس حیثیت سے ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔ 
استاد حدیث جامعہ حسینہ عربیہ شریوردھن مولانا مفتی رفیق پورکر نے نئے پیش آمدہ مسائل پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسائل کے فتوے حالات کے اعتبار سے بدل جاتے ہیں۔ ہم ہمارے پیش رو علماء وفقہاء
 نے شوافع مسلک پر بہت بڑا کام کیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں کتابیں لکھی ہیں لیکن موجودہ زمانہ اور حالات کے اعتبار سے مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اب نئے مسائل پر غور وخوض کرنے اور ایک رائے تک پہنچنے کے لیے اس مجمع الامام الشافعی العالمی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ لہذا ہمیں اب دلچسپی کے ساتھ اس کام کو کرنا ہے اور اس کے لیے نئی نسل کو بھی تیار کرانا ہے۔ 

ان کے علاوہ مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے شوافع علماء نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سراہنا کی اور اس کے ذمہ داروں خصوصاً ناظم جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور مولانا عبیداللہ ابوبکر صاحب ندوی کو مبارکبادی پیش کی۔ اس موقع پر مرکز امام شافعی بارکس کے امیر مفتی عبدالعزیز صاحب اور استاد جامعہ حسنیہ ایر نا کولم شیخ جبیر الکوثری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا اقبال صاحب ملا ندوی نے کے صدارتی کلمات اور ان کی دعا پر یہ مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔ 

Share this post

Loading...