کہ سابقہ سالوں سے ہٹ کر امسال ہرہفتہ واری جلسوں میں ہر طالب علم حصّہ لے گا، لہٰذا اسی فکر کے ساتھ ہر ہفتہ بروز جمعرات تعلیمی گھنٹوں کے بعد حضرات اساتذہ کی نگرانی میں ہفتہ واری پروگرام منعقد کئے جاتے رہے ۔ طلبہ کو چھ گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ امسال کل آٹھ ہفتہ واری جلسے، قصّہ گوئی، لطیفہ گوئی، شعر وشاعری، نعت سرائی اور تقاریر وغیرہ پر مشتمل منعقد کئے گئے۔ اس کے علاوہ ایک شہریہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ایک محاضراتی نشست کا بھی انعقاد کیا گیا تھاجس میں استاذ جامعہ مولانا عبدالعلیم صاحب ندوی نے اسلاف کا بچپن واقعات کی روشنی میں کہ عنوان پر مفید اور مؤثر باتیں بیان فرمائیں تھی۔ طلبہ کے اندر حاضر جوابی علمی پختگی اور سیرت سے واقفیت کی جانچ کے لیے ایک برجستہ کوئز مقابلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور خوب داد تحسین وصول کی۔ طلباء کی کد وکاوشو ں، ان کی محنتوں اور صلاحیتوں کی پیشی جو سال بھر ہوتی رہی اس کی ایک جھلک سال کے آخر میں پیش کی جاتی ہے اور اس میں تقاریر مقابلے،کے ساتھ الگ الگ عنوان کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، آج کے سالانہ اجلاس میں یہی دیکھنے کو ملا لگ بھگ پچپن طلباء نے آج سالانہ اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے تاریخ رقم کرڈالی اس اجلاس کا آغاز محمد احمد رکن الدین (سوم ب) کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، اور ابو محمد صفوان سدی احمدا نے نعت پیش کی، آج کے اس پروگرام میں ، اردو تقاریر، نوائطی تقریر، کنڑا مکالمہ، فقہی کوئز ، عربی ترانہ ، جنرل کوئیز، اردو ترانہ، انگریزی تقریر، اردو مکالمہ عربی نظم، ہندی مکالمہ ،کنڑا تقریر، انگلش و عربی کے علاوہ بیت بازی ، عربی مکالمہ جیسے الگ الگ عنوانات کے پروگرام پیش کئے گئے جس کو سامعین نے خوب سراہا، جلسہ کی پوری روح دراصل نظامت پر پنہاں ہوتی ہے ، اسی لئے طلباء کو یہاں جامعہ میں ابتداء درجات سے ہی اس کی تربیت دی جاتی ہے آج بھی یہ خوبصور ت منظر دیکھنے کو ملا کہ جیسے عنوانات بدلتے گئے اسی طرح نظامت کے چہرے بھی بدلتے گئے جس میں قابلِ ذکر عبداللہ آرمار، زیان شریف، تابش علی باپو، تبیان آرمار، شہباز کڑپاڑی، عبدالمقیت رکن الدین ، عبادہ سکری، عبداللہ آرمار وغیرہ ہیں، اس اجلاس میں مہمانان خصوصی کے طورپر ناظمِ جامعہ اسلامیہ ماسٹر شفیع صاحب، مہتمم جامعہ اسلامیہ مولانا عبدالباری ندوی ، اُستاد حدیث مولانا مقبول کوبٹے ندوی، مولانا الیاس ندوی کے علاوہ جامعہ کے سینئر اساتذہٗ کرام اور طلباء کے سرپرستان موجود تھے، دوپہر دیڑھ بجے مولانا عبدالعلیم قاسمی صاحب کے دعائیہ کلمات پر یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
Share this post
